آئی ایس او انسان ساز فیکٹری

تحریر:سیدہ مرضیہ زہرا

شب تاریک رشکِ روز ہوگی عمل پیہم سے
ہم اپنی جستجو کو ماہ کامل کر کے چھوڑیں گے

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جس کی بنیاد آج سے ۴۹ برس پہلے قرآن و سیرت محمدﷺ و آل محمدﷺ کی روشنی میں عالمی و انقلابی نہضت کو سرزمین پاکستان پر اجاگر کرنے کے لیے رکھی گئی اور آغاز میں اس عزم و فکر کے امین مٹھی بھر نوجوان قومی درد کا زخم سینے پر سجا کر ہواؤں کی مخالف سمت کو چلے اور "حی علی خیر العمل” کا نعرہ لگاتے ہوئے منزل کو رواں ہوئے۔اس مختصر قافلے کی صدا میں اتنا درد تھا کہ خوابیدہ لوگ بیدار ہوئے،اور بیدار متحرک ہوگئے۔اس الہی تنظیم کی بنیاد بِھی انہی عظیم و انقلابی جوانوں نے رکھی جو اس پلیٹ فارم کے ذریعے دن رات ایک کر کے اس کے پیغام کو گھر گھر پہنچاتے رہے اور پیروان ولایت بن کر خط امام خمینیؒ پر عمل کرتے ہوئے اس تنظیم کی اپنے خون سے آبیاری کی ۔اسی تنظیم نے ہمیں کچھ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی و شہید تنصیر حیدر جیسے سورج عطا کیے جو صدائے حق پر لبیک کہتے ہوئے اپنی منزل کو پا گئے اور ان کے روشن کیے گئے کئی ستارے اب بھی سفر میں اور انکی فکر انقلاب کو اپنے قول و فعل سے جوانوں میں عام کر رہے ہیں۔ بقول شاعر:

بام فلک پہ کر کے ستاروں کا اہتمام
سورج تھا سب کے سامنے جو ڈوبنے گیا

اور یہ پاک لہو کی ہی تاثیر ہے کہ آج جوانوں میں شوق شہادت گردش کر رہا ہے اور آج کے اس پُر آشوب دور میں بھی ہمیں شہید حسن رضوی جیسے پاکیزہ جوان ملتے ہیں۔ آئی۔ایس۔او کو علم و عمل کا کارواں کہا جاتا ہے اسی لیے یہ ہمیشہ علماء کی نظارت میں کام کرتی ہے۔ اور آج جو یہ الہی تحریک ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آرہی ہے۔اسکی وجہ فقط وہ نظریات ہیں جن کی بنیاد پر یہ قائم کی گئی۔ان کی بدولت ہی یہ ہمیشہ ولایت فقیہ سے متمسک رہ کر پرچار ولایت کرتی رہی۔اسی لیے ہر محاذ پر استعمار کے سامنے آئی۔ایس۔او کے جوان صفِ اول میں نظر آتے ہیں اور اپنے جوش و جذبے سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ۔۔۔

زندگی کے ابتدائی دور میں بھی کم سے کم
آدمی کو عرش تک پرواز کرنا چاہیے
اور جب جنبش میں آجائیں پر و بال حیات
عرش سے پرواز کا آغاز کرنا چاہیے

اسی شوقِ پرواز کی بدولت یہ جوان ہمیشہ مستضعفین جہاں کے حق میں آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں اور حق بات زباں پر لانے سے ذرا بھی نہیں گھبراتے۔یہ سب انہی عظیم رہنماؤں اور بانیان کی تاثیر ہے جو پکارتی ہے کہ۔۔۔

ہم کل بھی سردار،صداقت کے امیں تھے
ہم آج بھی انکار حقیقت نہ کریں گے

کسی بھی تحریک کی اساس اس کا نظریہ ہوتی ہے اور اساس سے متمسک رہنے میں ہی بقا ہے تو کیا ہم اپنی اساس کے ساتھ منسلک ہوکر اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟؟ کیا ہم شہید ڈاکٹر کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے اپنی الہی ذمےداری ایمانداری سے نبھا رہے ہیں۔ کہ شہید فرماتے ہیں:
"اگر آپ میں سے ہر شخص ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کی فکر کرے تو باخدا ہر شخص میں اتنی صلاحیت ہے کہ معاشرے کو تبدیل کر سکتا ہے”

اور معاشرہ سازی کا آغاز خودسازی سے ہوتا ہے۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم امام عج کے لیے کام کر رہے ہیں یا فقط انکا نام استعمال کر رہے ہیں؟!!
کیا ہم شہید حسینیؒ کے وحدت کے نظریات اور شہید نقویؒ کا انقلابی فقر اور عشق موجود ہے؟ !!
کہیں ہم نے تنظیم کو اپنا ہدف و مقصد تو نہیں بنا لیا جبکہ یہ فقط وسیلہ تھی منزل تک پہنچنے کا؟!!
کیا دستور کی جانب سے ہمیں جو حقوق ملے ہیں کہ جہاں کوتاہی دیکھیں اپنی رائے کا اظہار کر کے اسکو درست کروائیں تو کیا ہم وہ حق ادا کرتے ہیں جبکہ انقلاب کسی کو بغیر سوچے سمجھے فالو کرنے سے نہیں آتا؟!!!
کیا ہم "حی یا علی خیر العمل” کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے مؤذن کی ذمےداریاں ادا کر رہے ہیں؟؟!!
یہ درست ہے کہ ہم آئی۔ایس۔او سے اخلاق، علم، اجتماعی عبادات،مظلوم کی حمایت، حق کے لیے آواز بلند کرنا،العجل کا مفہوم اور بہت کچھ سیکھتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود فقط اپنی "میں” ختم نہیں کر سکتے تو معذرت کے ساتھ ہم فقط خود کو دھوکہ دے رہے ہیِں۔۔۔
پس اب اس یوم تاسیس پر ہمارا فرض اوّلین تنظیم کے دستور العمل اور شہداء و بانیان کی تعلیمات کے سائے میں اپنا محاسبہ کرنا ہے۔
کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟ کیونکہ شہید علی چیت سازیان کے مطابق:

"دشمن کی خاردار تاڑوں کو وہی عبور کر سکتا ہے جو اپنے نفس کی خاردار تاڑوں میں نہ پھنسا ہو”

تو اب ان نفس کی خاردار تاڑوں سے نکلنے کا وقت ہے !!!
اب اس تحریک کے مقصد کو درک کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کا وقت ہے!!!
اب ساحل پر کھڑے رہنے کا وقت نہیں بلکہ جہادی جذبوں کے ساتھ گہرے سمندروں میں اترنے کا وقت ہے !!!

اب وقت آگیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے