معرکہ سیف القدس ویبینار

رپورٹ:سیدہ مرضیہ نقوی

تھنکرز رائٹر کلب کے زیر اہتمام حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ کے پیش نظر معرکہ سیف القدس ویبنار کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں میزبانی کے فرائض کالم نگار خواہر سویرا بتول نے انجام دیے۔ویبنار میں خواہران اور برادران کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا جس کا شرف قاری نجف علی نے حاصل کیا۔بعد ازاں محبوبِ کبریا کے حضور آٹھ شوال یوم انہدامِ جنت البقیع کی مناسبت سے خاتونِ جنت جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام علہیا کی منقبت پیش کی گئی۔برادر محب علی کی خوبصورت آواز میں جنابِ سیدہ کا کلام پیش کیا گیا۔خواہر وجیہہ زہرا نقوی نے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں فلسطین کے معصوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔مہمانِ خصوصی میں معروف دانشور و تجزیہ نگار ڈاکٹرراشد عباس نقوی اور جنرل سیکرٹری فلسطین فاونڈیشن پاکستان ڈاکٹر صابرابومریم نے اہم نکات کی طرف متوجہ کیا۔اس موقع ڈاکٹر صابر ابو مریم کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین ایک اہم بنیادی مسئلہ ہے جس کی طرف تمام عالمِ اسلام کو متوجہ کرنا ضروری ہے۔اس وقت تمام عالمی سامراجی طاقتوں کو ہر قسم کی معاونت فراہم کی جارہی ہے کہ وہ نہتے فلسطینیوں پر سالوں سے جاری ظلم و بربریت کی داستان کو جاری رکھیں۔ اس موقع پر تمام اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان اور ترکی کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ آپ کا مزید کہنا تھا کہ فلسطین کے موجودہ حالات اور حماس و فلسطینیوں کی پاکستان سے توقعات زیادہ ہیں ہمیں اس مسئلہ کو بہترین طریقے سے نہ صرف زیرِ بحث لانا چاہیے بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھانے چاہیے۔یورپی ممالک اور بالخصوص شیعہ سنی عوام میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی بڑھ رہی ہے جس سے مظلومین فلسطین کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے اور یہ شیعہ سنی اتحاد کے لیے کارگر ثابت ہوگا۔ سوشل ایکٹیوسٹ ومحقق حمیرا عنبرین نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر تھنکرز رائٹر کلب کے لکھاریوں کو نہ صرف مفید آراء پیش کیں بلکہ افغانستان کے موجودہ حالات پر مفصل گفتگو کی۔بعد ازاں معروف دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر راشدعباس نقوی نے موجودہ صورتحال کا ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا۔تاریخی اہم بحرانوں سے موازنہ کرتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ تمام بحران ایک خاص وقت کے لیے تھے اور سب کا کوئی نہ کوئی حل نکلا مگر مسئلہ فلسطین کئی سالوں سے ہنوز باقی ہے جسکے لیے اس کی بنیادی وجوہات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔آپ نے مسئلہ فلسطین کو اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب سے پہلے اور بعد از انقلاب امام خمینیؒ کی حکمت عملی کے تناظر میں بیان کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مصنفین کے لئے لکھنے کا نقشہ راہ معین کیا۔سالوں سے جاری فلسطین کی جدوجہد کو دو ادوار میں تقسیم کیا۔
۱قبل از انقلاب اسلامی ایران
۲بعد از انقلابِ اسلامی ایران
آپ کا کہنا تھا کہ ان دونوں ادوار میں پیش آنے والے واقعات، جنگوں، معاہدوں اور کوششوں کا دقیق مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔آپ کا مزید کہنا تھاکہ مسئلہ فلسطین میں عالمی اداروں کے کرادر کو سمجھنے کے لیے Types of Diplomacy کو سمجھنا ضروری ہے۔ہم آج تک مسئلہ فلسطین پہ عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ عالمی ادارے انہی ممالک کے فنڈز سے چلتے ہیں اس لئے جہاں مغربی ممالک کا انٹرسٹ ہو وہاں پر مسائل حل نہیں ہوتے۔ مگر آج زمانہ بدل گیا ہے حتی کہ اقوام متحدہdocumentation میں بھی اسرائیل کی بربریت کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔ایک سوال کے جواب میں موجودہ جنگ کو طول دینے پر اسرائیل کو پہنچنے والے فوائد اور نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ۔اختتام میں آپ نے لکھنے والوں کو مفید تجاویز پیش کیں اور تھنکر رائٹرز کلب کی کاوشوں کو سراہا ۔ویبنار کا اختتام دعائے سلامتی امامِ زمانہ سے کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے