سنہرے منافق
تجزیہ و تحریر،
ثقلین خان سرگانی۔
طیب اردوان اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں سے منافق ترین حکمران ہے جو اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے بعد سے کبھی روس کے صدر کو کال کرکے فلسطینی قوم اور بیت المقدس کے تحفظ کا کہتا ہے تو کبھی عالمی برادری کو نوٹس لینے اور کبھی شاہ سلمان کو اسرائیل کا احتساب کرنے کی بات کرتا ہے اور کبھی ملٹی میڈیا پر خود نمائی کی غرض سے اسرائیل کو ہاتھ توڑنے کی دھمکی دیتا ہے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ طیب اردوان نے نہ تو شام و عراق میں اپنی فوجیں اتارنے سے پہلے عالمی برادری سے نوٹس لینے کا کبھی کہا اور نہ افغانستان میں اپنی افواج مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے سے پہلے۔
شام ، عراق و افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور شام و عراق سے تیل و گیس کی لوٹ مار جاری رکھی ۔ لیکن بیت المقدس کے تحفظ کیلیئے عالمی برادری یاد آ گئی۔
مسلم ممالک کو او آئی سی اجلاس میں الجھا دیا تا کہ کوئی فلسطین کی مدد نہ کر سکے۔
طیب اردوان کا یہ دہرا معیار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، ایک طرف تو فلسطین کی حمائیت میں واویلا مچا کر مسلمانوں کو اہنی طرف متوجہ کرنا اور خود کو ہیرو بنانے کی کوشش کرنا جبکہ دوسری طرف اسرائیل سے مضبوط تعلقات کا قائم رکھنا اس کے چہرے سے منافقت کا غلاف نوچ رہے ہیں۔
28 مارچ 1949 میں اسلامی ممالک میں سب سے پہلے اسرائیل کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے والا ، جبکہ ابھی اسرائیل غاصب حکومت کو قبضہ کیئے ہوئے دس ماہ ہی گزرے تھے، سب سے پہلے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولنا اور ترکی کے شہر انقرہ و استنبول میں اسرائیلی سفارتخانوں کا قیام فلسطین ، بیت المقدس اور امت اسلامیہ سے غداری کا ثبوت ہیں۔
بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ فروری 1996 میں اسرائیل و ترکی کے درمیان عسکری تعاون کے معاہدے پر باقائدہ دستخط ہوئے اور دونوں ممالک کے مابین مشترکہ اسٹراٹیجک ریسرچ گروپ کی تشکیل عمل میں لائی گئی، بحری و فضائی مشقیں شروع کی گئیں ۔ اس کے علاوہ ترکی میں ہی موجود امریکی انجرلیک فوجی بیس میں امریکہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتا رہا۔
اس کے علاوہ ایک اور انتہائ اہم معاہدہ ترکی و اسرائیل کے مابین یہ کہ ایک دوسرے کے فضائی راستوں کو بلا اجازت کبھی بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
2010 میں ترکی بحری جہاز پر اسرائیلی حملے کا ڈرامہ رچا کر 2010 میں ہی اسرائیلی وزیر اعظم یہود باراک کا انقرہ میں ترکی صدر کے ساتھ دونوں ملکوں کے مابین سلامتی اور عسکری میدان میں 60 معاہدے عمل میں لائے گئے۔سکیورٹی و امن و سلامتی کے ہی نام پر ترکی کے مشرقی علاقے ملاطیہ شہر میں کوراجیک نامی مشہور جگہ میں ایک تنبیہی بیس بنایا گیا جس کا مقصد اسرائیل کی حمائیت اور خطے میں اسے تمام ممالک کی خفیہ نگرانی کے مواقع فراہم کرنا تھا۔
حالانکہ اندرون ملک و بیرونی ممالک کی جانب سے بے تحاشہ تنقید و احتجاج کے ساتھ خدشات کا اظہار بھی کیا گیا لیکن ترکی کی اسرائیل نوازی میں زرہ بھی فرق نہ آیا۔
2002 کے ترک اسرائیل کے معاہدے کے تحت اسرائیل اپنی ضرورت کا تمام تر پانی ترکی سے خریدتا ہے اور فلسطین کو اسرائیل ہی پانی دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اسرائیل بار بار فلسطین پر پانی بند کردیتا اور اذیت دیتا تھا۔ 2013 میں امریکہ کے توسط سے اسرائیل و فلسطین میں یہ معاہدہ طئے پایا کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں فلسطین کا پانی بند نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ترکی نے اپنا پانی فلسطین کو بیچنے کے بجائے اسرائیل کو ہی بیچنا زیادہ مناسب سمجھا۔
دسمبر 2020 میں طیب اردوان نے اپنے ایک بیان میں اقرار کیا کہ ترکی و اسرائیل میں انٹیلیجنس سطح پر بات چیت ہو رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
خلیج سے شائع ہونے والے مؤقر انگریزی اخبار کا کہنا تھا کہ ، ترکی و اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے ہوتے اگر ہمیں اعلی سطح پر مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔ اخبار کے مطابق ترکی کے صدر طیب ادوان نے اعتراف کیا کہ ہمیں اوپری سطح پر لوگوں کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے تاہم ان کا کہنا تھا ترکی اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا چاہے گا۔ یہ سنہری منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔
اسی طرح ترکی اپنی ضرورت کی 60 فیصد گیس روس 20 فیصد ایران اور باقی دیگر زرائع سے پوری کرتا آ رہا تھا لیکن اب ترکی نے اپنی ضرورت کی تمام گیس اسرائیل سے خریدنے کا معاہدہ کیا ۔ بلکہ اسرائیل اب ترکی کے راستے سے ہی اپنی گیس یورپی ممالک کو فروخت کرے گا۔
ترکی ، ترک ، ایران ، عراق ، بارڈر پر کردستان کے عدم قیام کیلیئے بھی اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کو ضروری سمجھتا ہے جس وجہ سے ترکی کبھی بھی اسرائیل سے دور ہونا نہیں چاہے گا۔
طیب اردوان اگر اسلام اور فلسطین کے ساتھ مخلص ہے تو کیا ترکی میں یہ ایمانی و اخلاقی جرائت ہے کہ انقرہ و استنبول سے اسرائیلی سفارتخانے اور تل ابیب سے ترک سفارتخانہ ختم کر دے؟
کیا ترکی بیت المقدس کی سپورٹ میں ملاطیہ کوراجیک میں قائم تنبیہی بیس اور اسرائیل کو ائیر سٹرائیکس اور بلیسٹک مزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کیلیئے ترکی میں قائم نیٹو ٹاور اسٹیشن بند کر سکتا ہے؟؟
کیا طیب اردوان اسرائیل کو بیچا جانے والا پانی اسرائیل کی بجائے فلسطین کو بیچ سکتا ہے ؟ اور اسرائیل کی ترکی کے راستے تیل و گیس کی یورپین ممالک کو فروخت اور عراقی صوبہ کردستان سے ترکی کے ہی راستے تیل و گیس کی اسمگلنگ روک سکتا ہے؟
طیب اردوان اسرائیل کو واقعی ظالم وغاصب
سمجھتے ہوئے باہمی عسکری تعاون معاہدے، انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت سیکیوریٹی وامن و سلامتی کے نام پر کیے گئے 60 معاہدوں کو منسوخ کر کے ترکی و اسرائیل کے بنائے ہوئے مشترکہ اسٹریٹجک ریسرچ گروپ سے علہدگی اختیار کر سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کب اور اگر نہیں تو پھر طیب اردوان فلسطین کے ساتھ ہے یا اسرائیل کے ساتھ؟؟؟
گزشتہ روز ہونے والے او آئی سی اجلاس کا نتیجہ کیا نکلا؟
کیا اسلامی ممالک کا اس وقت او آئ سی، اجلاس بلانے سے زیادہ بہتر ایران و حزب اللہ کا ساتھ دینا نہیں تھا جو بغیر کسی کا انتظار کیئے اور بغیر کسی کو صدا دیے عملی طور پر اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں اتر چکے تھے؟؟
اجلاس میں اسلامی ممالک کی مشترکہ انٹرنیشنل فورس تشکیل دینے کی قرارداد کے کیا معنی اور اس سے فلسطین کو کیا فائدہ ہوا؟؟
اگر اسلامی ممالک کی مشترکہ انٹرنیشنل فورس اب بنانی ہے تو 47 ممالک کی وہ اتحادی فوج جو پاکستانی ریٹائرڈ جنرل راہیل شریف کی سربراہی میں بنائی گئی ہے کیا تھی؟؟؟
اسلامی ممالک کے سربراہوں کا مسئلہ فلسطین پر عالمی برادری کے نوٹس لینے کا بیان کہیں مسئلہ فلسطین سے برائت و کنارے کا اعلان تو نہیں؟؟؟