قدس شریف کے حوالے سے اہل پاکستان کی ذمےداریاں
تحریر:سیدہ مرضیہ زہرا
"یوم القدس کا دن صرف گھر سے زبردستی نکالی گئی قوم کے دفاع کا دن نہیں بلکہ ظالمانہ استعماری نظام سے لڑائی کا دن ہے۔”
[ولی امر المسلمین رہبر معظم سید علی خامنہ ای]
اس حقیقت کا ادراک روز اول سے مسلمانانِ برصغیر نے کیا ہوا تھا۔وہ وقت جب مسلمانوں کے پاس ایک الگ وطن تک نہ تھا اور وہ وقت کے استعمار سپر پاور کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے اور آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے۔اور جب امریکہ اسرائیل کے قیام کے لیے سازشیں کر رہا تھا اس وقت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سمیت تمام لیڈران اور عوام صرف الگ وطن کے خواب نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ان سب کی استعمار کے خلاف اور فلسطین کے حق میں واضح مقاومت منظرعام ہر آتی ہے۔حتی کہ دنیا کا پہلا "یوم فلسطین” ۱۹۳۶ء میں قائداعظمؒ کی اپیل پر برصغیر پاک و ہند میں منایا گیا جس میں مسلمانوں سمیت ہندوؤں اور عیسائیوں نے بھی شرکت کی۔تمام اہم اجلاسوں یہاں تک کہ ۱۹۴۰ء کی قرارداد پاکستان کے اجلاس میں بِھی بانئ پاکستان نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی۔پاکستان بننے کے بعد بھی قائداعظمؒ کا موقف کلیئر کٹ تھا اور اپنے پہلے انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ:
"We will go to any length to help the palistinian people in their quest for their rights”
He further clarified that:
"We would do whatever we can do if violence is necessary.”
یہ تمام حقائق بیان کرنے کا مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ مسئلہ فلسطین شروع سے ہی مسلمانانِ برصغیر کے دلوں کے بہت قریب ہے۔اور برصغیر کا مسلمان عالم اسلام کے حوالے سے خود کو ذمےدار سمجھتا ہے اور ہرگز اس سے لاتعلق نہیں ہوتا۔مسلمان کی سرحد لامحدود ہوتی ہے۔جہاں بھی ظلم ہو وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
بقول اقبالؒ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر
اور گویا مسلمان اس شعر کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے:
جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا! ملک خدا تنگ نہیں ہے
تو اپنی اسی حق پرستانہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے اہل پاکستان خارجی مشکلات کے باوجود فلسطین کے معاملے میں اپنے موقف پر قائم ہیں اور ہرگز اسرائیل کو تسلیم نہ کیا اور نہ کریں گے۔
کسی بھی چیز کی بقا کے لیے اسکا اپنی جڑ کے ساتھ تعلق ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور ہماری وہ جڑ ہماری آئیڈیالوجی ہے۔ وہ نظریہ لا الہ الا اللہ جس کی بنیاد پر یہ وطن عزیز حاصل کیا۔تو ہمارے وزیراعظم صاحب اور وزارتیں آج اگر استعماری دباؤ کا شکار ہوتے ہوئے اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے دو ریاستی موقف اختیار کر رہی ہیں تو ان کو کم از کم اپنی شاندار تاریخ،نڈر بانیان اور آفاقی آئیڈیالوجی کی لاج رکھنی چاہیے۔کیا یہ لوگ اور جو مسلم ریاستیں آج اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہیں خدا کا یہ فرمان بھلا چکی ہیں کہ:
"(آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟”(النساء:۷۵)
مزید جو حکمران دو ریاستی نظریے کے حامی ہیں وہ یہ جان لیں کہ آج اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں تو کل کو وہ بھارت کے ناجائز قبضے کو بھی تسلیم کریں گے۔پھر وہ کشمیر کے معاملے میں دنیا سے تعاون کی امید رکھنا بھی چھوڑ دیں!!
اختتام میں سرزمین پاکستان کی غیور قوم سے چند گزارشات کروں گی کہ یوم القدس یا مستضعفین جہاں کے لیے آواز بلند کرنا،احتجاج کرنا، ریلی نکالنا یہ سب بہت اہم ہے اور اس سے ہم نے اس مسئلے کو بین الااقوامی سطح پر زندہ رکھا ہوا ہے اور استعمار پر دباؤ ڈالا ہوا ہے لیکن یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ اگر ہم مظلومین کی حمایت اور استعمار کے خلاف مقاومت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انکو ہر میدان میں شکست دینی ہوگی۔چاہے وہ تعلیمی میدان ہو،معاشی ہو،سیاسی ہو یا اقتصادی۔۔۔سب سے پہلے ہمیں اپنی علمی استعداد کو بڑھانا ہوگا کہ ہم جس بھی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں اس میں ہم سے آگے کوئی صیہونی نہ ہو۔۔۔ہم یوم القدس کی ریلی میں صیہونی مصنوعات استعمال کر کے نعرےبازی نہ کر رہے ہوں۔۔۔
اسکے لیے ہمیں اپنی فکری اور علمی سطح کو بلند کر کے اپنی صلاحیتوں کا ظہور کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم Cultural imperialism سے نکل کر خودمختار ہو سکیں۔اسی کا نام مقاومت ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران میں نظر آتی ہے اور اگر ہم اس پر ثابت قدم رہیں تو پھر خدا وعدہ کرتا ہے کہ:
وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا