الف سےانسانيت !

الف سےانسانيت !

تحریر:عبير فاطمہ
پچھلے دنوں رمضان کے حوالے سے ایک محترمہ کا آرٹيکل پڑھنے کا اتفاق
ہوا۔ نفس مضمون کچھ یوں کہ پاکستان ميں اقليتوں کو پبلک مقامات پر طعام
کی سہوليات کيوں نہيں دستياب۔ ریسٹورنٹس و ہوٹل دن کے اوقات ميں بند
کيوں۔ پاکستان ميں احترام رمضان آرڈیننس کر کيا رہا ہے۔ وغيرہ۔
پڑھ کر ذہن اس رو پر چل پڑا کہ شاید پاکستان ميں اقليتوں کے ساتھ بڑی
زیادتی ہو رہی ہے ۔ کوئی ان سے بھی پوچھے کے جناب، آپ تو اسلام
کے دائرہ کار ميں نہيں ، آپ کا کيا قصور۔ عين ممکن ہے کہ اقليتيں اس امر پر
مسائل سے دو چار رہتی ہوں۔ سوچا اپنے آس پاس کے اقليتی برادران سے
اس بارے ميں استفسار کيا جائے ۔
اس حوالے سے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی مشال سے آن لائن
گفتگو رہی جو کہ ایک سوشل ایکٹویسٹ ہيں، ان کا کہنا تھا ” رمضان ميں
ہميں کوئی دقت نہيں، سوائے مہنگائی کے۔ ہر چيز کے دام دگنے ہو
جاتے ہيں۔ ان دنوں ميں ہم احتراما کچھ نہيں کھاتے پيتے،ایک دو گھنٹے
کی پياس بھی برداشت کر ليتے ہيں اور باہر کے بجائے گھروں ميں
ہی کھانے کو فوقيت دیتے ہيں”
لاریب ایک مسيحی ہيں جو کہ کرسچن ویلفئير ٹرسٹ کی رکن ہيں ۔ رمضان
کے احترام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا "پاکستان ميں اس ماہ کی
مہنگائی ایک مسئلہ ہے جو نہ صرف اقليت بلکہ مسلمان دونوں کو درپيش
ہے۔ جہاں تک کھانے پينے کی بات ہے، ہميں اس بات کو سمجھنے کی
ضرورت ہے کہ ہم ایک مسلمان ملک ميں رہتے ہيں اور یہاں کے قوانين پر عمل
کرنا ایک اچھے شہری کا فرض ہے۔ اگر کسی کو کچھ کھانا پينا مقصود ہو
تو ہم مسلم برادری کے سامنے ہرگز نہيں کھاتے ، یہ ہمارے خاندانی اور
اخلاقی اقدار کے منافی ہے کہ ہم مسلم برادری کی دل آزاری کریں”
ان آراء سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہيں کہ اقليتوں کے لئے دن کے اوقات
ميں کھانے پينے سے پرہيز اتنا سنگين مسئلہ نہيں۔ جس طرح دنيا بھر ميں
مسلمانوں کو بطور ذمہ دار شہری مختلف قوانين کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی
طرح مملکت پاکستان کے بھی کچھ قواعد و قانون ہيں جس پر اکثریت اقليتی عوام ذمہ داری سے عمل پيرا ہے۔
آج کے دور ميں روزے کی برکت سے نہ صرف مسلمان بلکہ غير مسلم بھی
فيض یاب ہونا چاہتے ہيں ۔ سی ڈبليو ٹی کی لاریب کا کہنا تھا کہ ان کی
آرگنائزیشن کے مسيحی چئيرمين زاہد سعيد نے اس ماہ کا پہلا روزہ رکھا
ہمارا یقين ہے کہ ماہ رمضان
اور مسلمان برادری کے ساتھ افطار بھی کيا۔”
بابرکت مہينہ ہے اور اس کی برکات سب انسانيت کے لئے ہيں ۔”
ماہ صيام ميں غير مسلم کے روزہ رکھنے کی روایت کوئی نئی بات نہيں ۔
ماضی ميں بھی کئی اہم شخصيات روزے کی روحانی اور جسمانی فيوض
کے معترف نظر آئے ۔غير مسلم یو ٹيوبر ایوا زو بيک اپنی ایک ویڈیو ميں
گزشتہ سال روزہ رکھتی اور اسکے فوائد پر گفتگو کرتی نظر آئيں۔ سری لنکن
اپوزیشن ليڈر ریحان جے وکرمہ نے اپنی ایک ٹویٹ ميں اس سال روزے رکھنے
کا اعلان کيا تاکہ مسلمانوں کے خلاف تعصب زدہ سوچ کا خاتمہ ہو سکے۔
مزید براں نان مسلمز کی جانب سے سوشل ميڈیا پر رمضان کے روزے
رکھنے کو ایک پاپولر ٹرینڈ کے طور پر اپنایا جا رہا ہے اور اس حوالے
سے اپنے اپنے تجربات کو شئير کيا جاتا ہے ۔ جس سے دیار غير ميں
بسنے والی مسلم کميونٹی کی حوصلہ افزائی ہو گی اور انہيں مذہبی
منافرت کا کم سے کم سامنا ہوگا۔
مسيحی برادری سے تعلق رکھنے والی مشال کا مزید کہنا تھا کہ ہماری
برادری مسلمانوں کی طرف سے منعقد کردہ افطار اور راشن ،زکوة وغيرہ
سے محرومی کا شکار رہتے ہيں ۔ وہ بھی اس امداد کے حق دار ہيں۔
اصل بات یہ کہ اگر غير مسلم ہمارے ماہ مقدس کا احترام کر رہے ہيں تو
مسلمان برادری کے علاوہ نادار اقليتوں کو بھی مالی امداد سے محروم نہ
رکھا جائے ۔ بہت سی مثاليں ایسی ہيں جس ميں سکھ، ہندو برادری
ماہ صيام ميں افطار اور راشن کا اہتمام کرتے ہيں اور کم پيسوں ميں اشياء
خوردونوش بھی فروخت کر رہے ہيں۔سندھ کے علاقے حاجی عبداالله ميں
پہلی بار ہندو برادری نے مسلمانوں کے لئے افطار کا اہتمام کيا۔ پشاور
کے مختلف علاقوں ميں سکھ برادری افطار کا اہتمام کرتی نظر آتی ہے۔
ایسے ميں ہم بھی بطور مسلمان اور بطور انسان جتنا ممکن ہو انسانيت
کے ناطے اقليتوں کو اپنی امداد سے محروم نہ رکھيں اور انہيں بھی
اپنی خوشيوں ميں شریک رکھيں۔
سی ڈبليو ٹی کی لاریب بين المذاہب رواداری کے بارے ميں پرجوش نظر
آئيں ۔ ان کے مطابق انکے سرکل ميں ایسے کئی مسلمان ہيں جو ان کے
مذہبی روزے ميں انہيں اپنے دستر خوان ميں شریک کرتے ہيں۔
ہميں بہت سے لوگ کہتے ہيں کہ آپکی آرگنائزیشن مسيحيوں کی فلاح کے

لئے بنی،آپ لوگ مسلمانوں کے لئے افطار دسترخوان کيوں لگوا رہے ہيں؟ ”
لاریب کہتی ہيں کہ ان کا جواب ایسے لوگوں کے لئے ہميشہ سے یہی رہا
ہے کہ ہماری جدوجہد انسانيت کے لئے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے