ایک جبری گمشدہ کی آپ بیتی حصہ ششم
حصہ ششم (آخری)
تحریر : مشک زاہراء
ظلم کے خنجر کو بڑی حیرت ہے
میں اس اذیت کو سمجھنے سے قاصر تھا جو میرے بعد میرے گھر والے سہہ گئے تھے….
مجھے اس اذیت کو سنتے ہوئے تکلیف ہو رہی تھی جو میری بوڑھی ماں بیان کر رہی تھی
میں نے اپنے بچوں پہ نظر کی
اور پیار کیا…..
تو میرے گھر والوں نے میری چھوٹی بیٹی کے متعلق بیان کیا
کہ اک دن اسکی ایسی حالت تھی کہ ہم سب روئے
میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تھا
تو مجھے بتایا گیا کہ
ہم سب نے بچوں کو یہی کہہ رکھا تھا کہ تم تعلیم کے لیے ایران مدرسے میں ہو…
اس لیے بچے جب بھی کال کرتے ہم بہانہ کر دیتے
اک دن تمہاری چھوٹی بیٹی جس کو تم سے بے انتہا محبت ہے اس نے ضد لگا رکھی تھی کہ بابا سے بات کروائیں
سب نے بہت ٹالنے کی کوشش کی وہ نہ مانی
آخر کار ہم نے کہہ دیا کہ بابا روانہ ہیں آ رہے ہیں
تو وہ مسلسل تصویر ہاتھ میں لیکر باتیں کرتی اور روتی تھی
اور اس نے ایران چچا کو کال کر کہ کہا
تو وہ بھی رونے لگ گئے
کیونکہ کسی کو بھی زندہ ہونے کی کوئی پکی خبر نہں تھی
نہ ہی ہم زندوں میں شمار کر سکتے تھے تمہیں نہ مردوں میں….
یہ سب سننا جتنا مشکل تھا اتنا ہی برداشت کرنا بھی مشکل تھا…
مجھے نہیں معلوم تھا کہ اسیری میں جہاں میں بے جرم و خطا قید تھا فقط وہی ظلم نہیں تھا مجھ پہ…بلکہ ساتھ ساتھ معاشرے نے میرے گھر والوں کا جینا بھی حرام کیا تھا….
میرے گھر والوں سے رشتہ داروں نے قطع تعلق کر لیا تھا
یہ کہہ کر
کہ آپ کا بیٹا دہشت گرد ہے….
اور یہ تلخ کلامی میرے گھر والے صبر و تحمل سے برداشت کر رہے تھے
کیونکہ انکو معلوم تھا میں بے گناہ ہوں …میرا کوئی جرم نہیں ہے ….
اس مشکل گھڑی میں
میری والدہ و زوجہ نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا..اور جس طرح حالات کے سامنے ڈٹے رہے وہ قابل فخر تھا…
میں اس وقت کردار حسینی نبھا رہا تھا .
اور میرا خانوادہ کردار زینبی نبھا رہا تھا…..
اس آب بیتی جس نے میری زندگی کو پلٹ کر رکھ دیا
ملت کے جوانوں اور قوم کی بیٹیوں کے لیے پیغام تھا …
کہ میں بے جرم و خطا اس قید میں رہا سختیاں برداشت کی پر حق کا ساتھ دینا نہیں چھوڑا نہ چھوڑا جا سکتا ہے…..
کردار حسینی ع نبھانا ضروری ہے
فقط زبان سے لبیک یا حسین ع کی صدا دینا بہت آسان ہے مگر عملی طور پہ لبیک یا حسین ع کہنا مشکل ہے
بلکل اسی طرح خواہران,,,اور بلخصوص اسیران کی زوجہ بہنوں ماوں کے لیے پیغام ہے
وہ کردار زینبی نبھانا نہ چھوڑیں
اپکے اسیر بے جرم و خطا قید ہیں ….آج دشمن جوانوں کی صلاحیتوں اور خواہران کی چادر سے خوفزدہ ہے
اپنے حجاب کو ہر گز فراموش نہ کریں ….اپنا پیغام جاری رکھیں
اس شعر کے مصداق میں
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے…..
ہمارا ورثہ شہادت ہے ….
اور ہمیں بغیر جرم اسیر تو کیا جا سکتا ہے پر حق سے ہٹایا نہیں جا سکتا
ہم ظلم برداشت کر جاتے ہیں کیونکہ یہ سفاکیت کی تمام حدیں بیرک کے اندر پار کر جاتے ہیں
مگر ہم علی ع والے ہیں ہمارا شیوہ نہیں ہے کہ ہم حق سے پیچھے ہٹ جائیں
یہ ملک پاکستان ہماری جان ہے
اسکی سالمیت ہمارا فریضہ ہے
اس میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کے لیے کوشاں ہیں ہم…..
لیکن ملک کے رکھوالوں سے گزارش ہے ایسی جبری گمشدگیاں کر کہ ایک بات یقین دہانی ضرور کریں کہ جرم کے ساتھ لائے ہیں یا بے جرم کسی کی زندگی تباہ کرنے جا رہے ہیں
ہم صبح امید کے منتظر ہیں…جب تک ہم خود اپنے آپ کو ظہور مولا مھدی عج کے لیے آمادہ نہیں کرتے تب تک ہم ان مشکلات سے دو چار ہوتے رہیں گے
کسی تنظیم تحریک قائد رہنما پہ یقین کر کہ اندھا دھن ساتھ نہ دیں
بلکہ سوچ سمجھ کر سوال ضرور اٹھائیں جن میں اہم سوال موجودہ حالات کے پیش نظر ہے
کہ یہ جو نعرہ لگایا جا رہا ہے
بازیاب کریں یا عدالت پیش کریں
یہ نعرہ ہی غلط ہے ….
بازیاب کریں سے مراد انکو اغوا کیا گیا یے
اور عدالت میں پیش کرنے کا مطلب
ان پہ جھوٹے Murder کیس , اسلحہ ,بارود کے کیس فائل کیے جائیں گے تاکہ انکا خانوادہ جو اپنی ظاہری ضروریات پوری کرنے کے لیے مشکلات میں گھر چکا ہے وہ عدالت کی پیشی و وکیل کے خرچ برداشت کرے
اور جب عدالت پیش کیا جائے گا تو پورا خاندان دہشت گرد لسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے
اس طرح زندگی بہتر ہونے کے بجائے مزید عذاب بن جاتی ہے
بے جرم جوانوں کو اٹھایا ہی کیوں جائے ؟؟؟؟؟؟
جس شک پہ اٹھایا گیا پہلے وہ شک تو ثابت کریں.
اسیران کے خانوادے بھی مظلوم ہیں…خداراہ قائدین کی باتوں میں آ کر اپنے پیاروں کو مزید اذیت دینے سے بچائیں
سوچ سمجھ کر مذاکرات کریں
اور اپنی باتیں منوائیں
جبری گمشدگان پورے پاکستان میں ہیں اس لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے
بے جرم قید موت سے کم نہیں ہے……
پروردگار مولا موسی کاظم ع کے صدقے تمام اسیران کو رہائی عطا کرے …..
امین
ختم شد….