اسلام جنگ چاہتا ہے یا مصالحت ؟
تحریر :رسول_میر
اسلام جنگ چاہتا ہے یا مصالحت؟ جواب ہے نہ جنگ , نہ مصالحت- اسلام سماج اور انسانیت کی بقا چاہتا ہے- بالکل ایک ڈاکٹر کی طرح جسے آپریشن یا دوائی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اسے صرف مریض کی صحت اور تندورستی سے دلچسپی ہوتی ہے- اس ہدف کی حصول کے لئے اگر دوائی سے ممکن ہوتو دوائی سے نہیں تو تند و تیز آلات سے انسانی بدن کو کاٹ کاٹ کر اس کی زندگی کو بچالیتا ہے- اب اگر کوئی بند دماغ, ڈاکٹر کو ظالم اور انسانیت کا دشمن سمجھے تو قصور ڈاکٹر کا نہیں بلکہ اس بند کھوپڑی کا ہے جسے کسی نے ٹرک کے بتی کے پیچھا لگادیا ہے-
باطل یعنی انسانیت کو لاحق بیماریوں سے کوئی مصالحت نہیں ہوتی کیونکہ سرطان کا واحد علاج مرہم نہیں صرف جراحی کا آلہ ہی ہوتا ہے- امام خمینی کا ارشاد ہے کہ انبیاء کا تلوار ,تلوار نہیں بلکہ جراحی کا آلہ ہوتا ہے- جس کے زریعے سماج کی تن اور بدن میں نکلنے والی زہریلی سرطانوں کو کاٹ کر انسانیت کو اس کی موزی اثرات سے محفوظ کیا جاتا ہے-
معاشرے میں جب بھی قیام اور مقاومت کی بات ہوتی ہے تو سست ,کاہل اور ڈرپوک طبقہ صلح امام حسن کو نیزے پہ اٹھا کر صفین کی یاد تازہ کرتے ہیں- علی علیہ السلام کی طرح عصر حاضر میں پیروان علی کو تنہا کرنے کے لئے امن و آشتی اور مصالحت کا راگ الاپتے ہیں- جس طرح صفین میں منافقین و خوارج نے قرآن کو نیزے پہ اٹھا کر وقت کے طاغوت کو محفوظ راستہ فراہم کیا بالکل اسی طرح آج کے منافقین صلح امام حسن کی صورت میں ناطق قرآن کو نیزے پہ اٹھا طاغوتی طاقتوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
امام حسن علیہ السلام معاویہ سے صلح نہیں جنگ چاہتے تھے تبھی مسجد کوفہ میں اعلان جہاد کیا اور ہزاروں کا لشکر لیکر نخیلہ میں مورچہ زن ہوگئے- مگر آج کے ایڈ زدہ مسلمانوں کی طرح طاغوت کے درہم و دینار کی جھنکار نے لوگوں کے کان کو بہرا کردیا- لعل و جواہرات کی چمک دھمک نے لوگوں کی بصیرت چھین لی- یکے بعد دیگرے سارے سپہ سالار بک گئے- دنیا پرست عوام بھی جوق در جوق دشمن سے ملتے گئے- معاویہ نے اپنی جاسوسوں کے زریعے کوفہ و مدائن کے گلی کوچوں میں شورش اور خاک و خون کا بازار گرم کردیا- ادھر نخیلہ میں بچی کچی امت نے خود اپنے امام پہ حملہ کیا خیمے کو آگ لگادی , جائے نماز کھینچ لی اور تن سے ردا بھی چھین لیا اعوان و انصار کی قلیل تعداد لیکر مدائن کی طرف رخ کیا تو راستے میں سر عام امام پہ حملہ کرکے زخمی کردیا- اب اس حالت میں امام جنگ کیسے کرتے لہٰذا آپ نے مصالحت کی صورت میں جنگی حکمت عملی تبدیل کردی واضح رہے یہ مصالحت نہیں ایک جنگی حکمت عملی تھی جس نے بنی امیہ کے حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرکے ان کے بھیانک چہرے سے اسلام کا نقاب اٹھادیا-
معاشرے میں ظلم ,جبر ,ناانصافی اور استحصال کے خلاف قیام کرنے والے مخلص نوجوان اور مختلف اصلاحی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد آکر شکایت کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں فسادی کہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں- میں ان کو یہی سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ طاغوت پرست افراد کا صفین سے لیکر نخیلہ اور نخیلہ سے آج تک یہی روش رہا ہے- ان کو نہ امام علی و امام حسین کی جنگ سے سروکار ہے نہ امام حسن کی صلح سے یہ طبقہ ہر صورت میں ظالم و جابر حکمرانوں اور طاغوت کا آلہ کار بن کر ان کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیر , افغانستان , عراق , لبنان اور شام سے لیکر یمن تک طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی پہ لبرل طبقے کے کانوں میں جونک نہیں رینگتی جبکہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ان طاغوتی قوتوں پہ مشکل آن پڑی تو لبرل طبقہ موم بتیاں لیکر چوک چوراہوں پہ نکل آتا ہے- عجب ستم ظریفی ہے کہ یہی طبقہ یوم القدس کے جلسے جلوس دیکھ کر سیخ پا ہوجاتا ہے- لہٰذا ہر گلی اور کوچے میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو آپ کو خود بخود لوگوں کے شجر نسب کا پتہ چل جائے گا-