قلم
تحریر ۔ مہر عدنان حیدر
حق اور باطل ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ جب حق وجود پایا تو عین اسی وقت باطل نے بھی سر اٹھایا اور یہ کہانی ازل سے ابد تک جاری رہے گی ۔ اور کسی نہ کسی صورت آگے بڑھتی رہے گی ۔اس کہانی کو جاری رکھنے میں قلم نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔جی ہاں آج میرا موضوع ہے قلم جس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ ہر حقیقت قلم کی محتاج ہے ۔اور قلم ہی حقیقت بیان کر سکتا ہے ۔
شاید قلم کا وجود تب سے ہے جب سے لفظ کن ہے۔ کیونکہ یہی قلم لوح و قلم ہے ۔
قلم کی عزت و عظمت کا کیا تذکرہ کرتا کہ قرآن کی سب سے پہلی سورت قلم کی عظمت پر دلالت کرتی ہے
ارشاد خدا ہوتا ہے
اپنے عظیم پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو قلم کے ذریعے تعلیم دی اور جو کچھ وہ نہیں جانتا تھا اُسے وہ سکھایا۔
قلم ظاہری طور پر تو ایک مادے کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے مگر معنوی طور پر قلم محسن انسانیت ہے۔ وہ یوں کہ قلم کے ذریعے ہی انسانیت خدا شناسی اور خود شناسی کے مقام سے آشنا ہوئی ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے تو یہ راز نا قابل آشکار تھا ۔
یہ حقیقت ہے کہ قلم کے ذریعے ہی جب کوئی قرآن سمجھنے بیٹھا تو مفسر کہلایا ۔ حدیث نقل کرنے لگا تو محدث بن گیا اور تاریخی حالات کو اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کی تو مورخ کہلایا اور یہاں تک کہ حصول علم کی کوشش کی تو عالم کہلایا ۔
غرض جو بھی جو بنا وہ قلم اور علم کے زور پر بنا ۔ اور یہاں تک کہ یہ علم بھی قلم کا محتاج ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ قلم سے پہلے علم آزاد تھا۔ اور وہ کسی کے تصرف میں نہ آتا تھا اور نہ ہی کسی کی قید میں آ سکتا تھا۔
جب علم اور قلم باہم مل گے تو علم کو قلم نے قید کر دیا اور باقیوں سے بھی کہا گیا کہ علم کو قلم کے ذریعے ہی قید کریں ۔
۔ یوں ہر مفسر محدث معلم اور ادیب اس نسخہ کیمیا کو استعمال کرتے ہوئے علم کی ترویج کرنے لگا اور یہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا گیا ۔جس سے زمانہ در زمانہ آشنا علم ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور تا قیامت جاری و ساری رہے گا ۔
گویا ہر اہل علم کا یہی نعرہ بن گیا کہ
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
غرض قلم کے ذریعے انسان نے کائنات کو تسخیر کیا اور نئے معلم نے گزرے ہوئے معلم سے اور نئے مورخ نے پرانے تاریخ نویس سے گزری ہوئی حقیقت کا حال جان کر کائنات کی ہیئت ہی تبدیل کردی اور معاشرہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علم حاصل کیا جائے اور قلم کا استعمال کر کے اہل قلم بنا جائے کیونکہ اہل قلم ہی معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں
اہل قلم ہی معاشرے کی حقیقتوں کو سچائی کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں اور ظالم کے خلاف لوگوں کی زبان کھلوا سکتے ہیں کیونکہ
زبان بغیر علم کلام نہیں کر سکتی اور کلام بغیر قلم کے وجود میں نہیں آ سکتا ۔
اس لئے کہا گیا ہے کہ قلم ہی کسی معاشرے میں انقلاب لا سکتا ہے اور اہل قلم ہی نوید انقلاب بن سکتے ہیں۔ یقینا جاہل لوگ قلم کے قریب نہیں آتے اور عالم لوگ قلم کو ترک نہیں کرتے ۔
ایک عربی شاعر کے بقول جس دن بہادر اپنی تلواروں کی قسم کھائیں گے ۔اہل قلم ان کو بتائیں گے کہ ہمارا قلم تمہاری تلوار سے بہتر ہے کیوں کہ کن کے خالق نے ہمارے قلم کی قسم کھائی ہے
ارشاد ہوتا ہے
قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔
سورت قلم آیت نمبر 1
حرف آخر قلم ہی ہر نئے انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ اگر قلم نہ ہو تو ثبات عالم میں ترقی نہ ہو ۔ دن رات جمود کا شکار ہو جائیں اور ہر بولنے والے کی زبان گونگی ہو جائے اور معاشرے میں نیا سوچنے والے سوچ و بچار کرنا بند کر دیں۔