ایک جبری گمشدہ کی آپ بیتی حصہ پنجم
حصہ پنجم
تحریر : مشکِ زہراء
*ظلم کے خنجر کو بڑی حیرت ہے*
بیرک کا دروازے کے کھلنے کے ساتھ ہی میرے وطن کا رکھوالا اندر آیا ..
مجھے کپڑے دیے کہ یہ پہن لو
پھر کہا کہ
تم سے آفیسر کی ملاقات ہے….
کچھ دیر بعد کپڑے پہنا کر مجھے اک کمرے میں لے جایا گیا
وہاں جا کر 16 ماہ بعد میرے ہاتھوں سے ہتھ کڑی اور پاوں کی بیڑیاں کھول دی گئیں
سامنے آفیسر بیٹھا تھا
اس نے سلام کیا
میں نے سلام کا جواب دیا …
پھر اس نے کہنا شروع کیا :
کہ ہم معزرت چاہتے ہیں کہ آپ کو یہاں شک کی بنیاد پہ رکھا گیا اور اب آپ آزاد ہیں یہاں سے
اسکے ساتھ ہی اک کاغذ تھمایا اور کہا
اس پہ سائن کر دو…
میں نے وہ کاغذ لیا اور دیکھا
تو اس میں چند شرائط تھیں کہ یہاں سے آزادی کے بعد میں کسی تنظیمی کاموں میں حصہ نہ لونگا…نہ ہی شدت پسندی کا مظاہرہ کرونگا وغیرہ وغیرہ …
میں نے سائن کیے۔
پھر وہ کہنے لگا کہ ہم معزرت کرتے ہیں اور چاہتے کہ آپ آگے اپنی زندگی جئیں یہاں سے آزادی کے بعد …
یہاں اک لحظہ میرا دل رکا…
میں نے ان سے کہا میرے چند سوالات ہیں ….
اجازت ہو تو وہ سوالات کرنا چاہتا ہوں
انھوں نے اجازت دے دی…
👈میں نے کہا آپ مجھ سے میرے ان 16 ماہ کی معزرت چند الفاظ سے کر رہے ہیں ….
لیکن یہ بتائیں
👈ان 16 ماہ میں میری زندگی کے وہ پل جو میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گزار سکتا تھا کیا وہ آپ واپس لا سکتے ہیں۔ ؟؟؟؟؟
👈معاشرے نے میرے خانوادے کو اک دہشت گرد کی نیت سے دیکھا ہوگا اور جو تکلیف اس لفظ دہشتگرد سے انکو ملی کیا وہ آپ ختم کر سکتے ہیں۔ ؟؟؟؟
👈میرے بچوں کے ساتھ معاشرے نے جو سلوک کیا اور انکا بچپن چھین لیا کیا وہ آپ واپس کر سکتے ہیں۔؟؟
👈وہ وقت جب طرح طرح کے مسائل فقط اس شک کی بنیاد پہ ہمیں پیش آئے کیا انکا ازالہ کرسکتےہیں آپ۔؟؟
👈آپ کا چند لفظوں کا Sorry میری زندگی کی اس تلخی کو نہیں مٹا سکتا….
👈جو مجھے ایذائیں دی گئیں کیا اس تکلیف کا کوئی ازالہ ہے ۔؟؟؟
👈میری گزارش ہے کہ آئندہ کسی کی زندگی فقط شک کی بنیاد پہ اس طرح اجیرن نہ کیجیے گا ..کہ اسکا اس معاشرے میں بے جرم ہوتے ہوئے جرم کے ساتھ جینا مشکل ہو جائے …
وہ آفیسر میرے سامنے خاموش رہا…اور پھر اٹھ کر باہر چلا گیا
تھوڑی دیر میں میری جیب میں 2500 ڈال کر میری آنکھوں پہ پٹی باندھ دی گئی
اور پھر گاڑی میں بٹھا دیا گیا
اک جگہ پہنچ کر مجھے گاڑی سے اتارا.اور کہا آدھے گھنٹے بعد یہ پٹی کھولنا.انکی گاڑی پھر تیزی سے چلی گئی.میں نے آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو میں پہاڑوں کے درمیان تھا اک انجانی جگہ جہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ تقریبا 40-45 منٹ چلنے کے بعد اک بوڑھا شخص نظر آیا
میں نے پوچھا کہ …یہ کونسی جگہ ہے
تو اس نے کہا کہ
بیٹا یہ روات کا علاقہ ہے
اس کے بعد میں نے اس سے اڈے کا راستہ پوچھا اس نے میری مدد کی اور میں وہاں سے چل نکلا ۔اڈے پہ پہنچ کر اپنے علاقے کی جانب روانہ ہوا….
اپنے علاقے کی جانب سفر کے دوران میری آنکھوں کے سامنے میری زندگی کی وہ فلم چل رہی تھی۔
مجھے وہ وقت بھی یاد آیا جب آزادی سے کچھ دن پہلے میں سخت تکلیف و اذیت میں تھا
ان کہ سوالات کے جوابات نہ دینے پہ مجھے 130 چھتر پڑے تھے
جس میں تقریبا 2 چھتر پڑنے کے بعد جلد پھٹ جاتی ہے اور خون نکلنے لگتا ہے💔
ملک کے رکھوالے نے کہا
میں مارونگا تم گننا
جہاں سے تم گننا بند کروگے
وہیں سے دوبارہ شروع کرینگے
اس طرح 70 چھتر کے بعد میں بے ہوش ہوگیا اور مجھے بے سدھ حالت میں بیرک واپس پہنچایا گیا
جہاں القاعدہ و ٹی ٹی پی کے دو بندے موجود تھے میرے ساتھ انھوں نے ہمدردی میں مجھے دبایا …تاکہ میں بہتر محسوس کروں ۔ میں کچھ بہتر ہوا تو دیکھا بیرک کے دروازے پہ سفید رنگ کے کپڑوں میں اک مرد آیا ہے
اور اس نے مجھے اشارہ کیا …
میں اٹھ کر گیا اسکے پاس
اس نے مجھے کہا
کیسے ہو ؟ خیریت سے ہو ؟
میں نے کہا ہاں جی
کہا کہ مشکل وقت ہے گزر جائے گا صبر رکھو …
اسکے بعد وہ چند باتیں کرنے کے بعد چلا گیا ….
میں واپس آ کر بیٹھا تو انھی دو بندوں نے کہا :
تم بیرک کے دروازے پہ کس سے باتیں کر رہے تھے
میں نے کہا :
وہ اک مرد آیا تھا
کہتے نہیں وہاں تو کوئی نہیں تھا تم خود سے باتیں کر رہے تھے…..
یہاں مجھے عجیب حیرت کا جھٹکا لگا ….
یعنی وہ مرد فقط مجھے دکھائی دیا تھا
اور یہ بھی محسوس ہوا کہ سخت تکلیف کی حالت میں بھی اس مرد کی باتوں سے مجھے بے حد سکون ملا تھا
آہ……میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ پتہ نہیں چلا کہ اپنے شہر اک بار پھر سے پہنچ گیا تھا
میری داڑھی ان 16 ماہ میں اتنی بڑھ گئی تھی کہ اگر کوئی دیکھ لیتا تو ڈر جاتا بہت لمبی ہوگئی تھی
تو میں نے اسے قمیض کے اندر چھپایا ہوا تھا…
میں بس سے اترتے ہی میں حجام کی دکان پہ گیا
اپنا حلیہ درست کیا کہ کہیں گھر والے اس حال میں دیکھ کر ڈر نہ جائیں
میں مضبوط اعصاب کا مالک تھا اس لیے ان سخت ترین حالات میں بھی خود پہ کنٹرول کر کہ حالت درست کرنا چاہ رہا تھا …..
حالت درست کرنے کے بعد میں اسی چچا کے گھر گیا جہاں سے مجھے 16 ماہ پہلے اٹھا لیا گیا تھا ….
دروازے پہ دستک دی
تقریبا نماز فجر کا وقت تھا
اندر سے کزن نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر حیرت سے ملا اور اندر آواز دے کر میرے آنے کی خبر دی….
میں اندر گیا سب کو ملا ..
میں نے سب کی خیریت دریافت کی …
آیا سب خیریت سے ہیں ؟
کیونکہ می ذہنی طور پہ آمادہ تھا کہ ممکن ہے میرے جانے کے بعد کچھ ایسا ہوا ہو جسے مجھ سے چھپا رہے ہوں
سب کے کہنے کے باوجود کے میرے گھر میں سب خیریت ہے..
میں نے پھر بھی چچی کو کہا کہ وہ میرے گھر کال کریں
اور فون سپیکر پہ رکھیں
چچی نے باتوں باتوں میں سب کا پوچھا …اماں نے سب جواب دیے
تو مجھے سن کر تسلی ہوئی کہ سب خیر یے.
پھر چچی نے کہا کہ ہم آئیں گے آج….
میں نے منع کیا کہ میرا نہ بتائیں
لیکن پہلے ہی میسج چل چکا تھا کہ میں رہائی پا چکا ہوں
ہمارے پہنچنے سے پہلے ہمارے گھر بھی خبر ہو گئی تھی …
اس لیے میرے بچے سکول تھے تو انکو وہاں سے لے آئے تاکہ میرے آنے سے پہلے وہ وہاں موجود ہوں
میں گھر پہنچا ….تو سب کو ملا..بچے مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے ….
سب بہت خوش ہو رہے تھے
اور مجھے انکی خوش دیکھ کر خوشی محسوس بھی ہوئی ساتھ دکھ بھی…..
کہ پتہ نہیں کتنے عرصےبعد انکو یہ خوشی نصیب ہوئی …کہ دل سے پر سکون تھے
میرے آنے کے بعد میرے ساتھ 2 اور جوانوں کو رہائی ملی تھی
میرے خانودہ سمیت ان دو کے خانوادے کو قائد (تنظیمی سربراہ ) کے دفتر لے جایا گیا
لیکن اک بار پھر ہمارے بے جرم ہونے کے باوجود ہمارے خانوادوں کو تکلیف سے دوچار ہونا تھا
کہ اس قائد (تنظیمی سربراہ ) نے ملنے سے انکار کر دیا…
جب وہ ٹوٹے دل سے واپس آئے تو میں دکھ میں انکو کچھ کہنے سے قاصر تھا
البتہ میرے زہن میں سوالات چل رہے تھے…..
کیا اس تکلیف کو کوئی درک کرنے کے لیے تھا یا فقط خدا کی زات تھی جو ہماری تکلیف جانتی تھی۔ ؟؟؟؟
میری والدہ بیوی اور بچوں نے میرے بغیر گزارے دنوں کے متعلق بیان نہ کیا تھا
مگر میرے پوچھنے پہ جب انھوں نے اپنے حالات بتائے تو مجھے لگا وہ اذیتیں جو میں نے اس بے جرم قید میں گزاری وہ کچھ بھی نہیں تھیں
جو تکلیف یہاں میری بوڑھی ماں ,میرے معصوم بچے اور بیوی کو جھیلنی پڑی اسکے سامنے میری تکلیف معنی نہیں رکھتی تھی ….
میں نے والدہ سے کہا :
اماں کس امید نے اپکو جینے دہے کہ اک دن لوٹ آونگا …
کہنے لگیں تمہارے اور تمہارے دوستوں کے خانوادے کو چند جوانوں نے اپنے خرچے پہ کربلا بھیجا….
جب ہم وہاں گئے تومیں حرم مولا عباس ع میں تھی ..شدید گریہ و مناجات کے بعد میری آنکھ لگ گئی ..
میں نے دیکھا کہ تم حرم میں ہو صحیح و سالم …تمہارے سبز کپڑے ہیں اور تم حرم میں جا رہے ہو….تب مجھے سکون ملا کہ میرا بیٹا زندہ یے
میری آنکھ کھل گئی ….
اور میں نے شکر پڑھا
کیونکہ ان 16 ماہ میں مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ تم زندہ ہو یا مار دیے گئے ….
میں نے مولا عباس ع سے درخواست کی کہ خبر ملے آیا تمہارے زندہ ہونے کی امید رکھیں
یا
تمہاری شہادت پہ سکون پا جائیں …..
میری آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں
کتنا مشکل تھا ان لمحات کو جینا جب ہمیں معلوم نہ ہو ہمارے پیارے زندہ ہیں یا مار دیے گئے…..
جاری یے……