حکومت کو سمجھ آنے والی زبان

تحریر:سیدہ وجیہہ زہرا

"میں بابے کی مسجد جا رہا ہوں یہاں لڑائی شروع ہو جاۓ گی مجھے کچھ بھی ہو سکتا ہے رسول(ص) کے نام پر جان بھی قربان اگر کچھ ہو گیا تو میری بیٹی کو عالمِ دین بنانا اپنی عزت کا خیال رکھنا”
تحریکِ لبیک پاکستان کے ایک کارکن کے وائس میسج کی آواز دھرنے میں گونجتی ہے کہ جب سامنے لاشے پڑے ہیں لوگ زخمی حال و ستم رسیدہ بیٹھے ہیں ۔۔۔۔
بہر کیف دھرنہ اختتام پذیر ہو گیا مذاکرات کیے گئے جن پر فل فور عمل ہوا کیونکہ سب متحد ہو کر نکلے اور جو زبان ہماری حکومت سمجھتی وہ سمجھائی گئی۔
دوسری طرف آتے ہیں پرامن دھرنہ جاری ہے ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ 12 دن کے اندر ہمارے اسیر رہا کر دیے جائیں گے۔۔۔
12 دن تو مکمل ہو چکے کہاں ہیں ہمارے پیارے؟؟؟
ہمارے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کیے جا رہے؟؟؟
آخر ہم کب تک ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال کرتے رہیں سڑکوں پر بیٹھ کر؟؟؟
ہماری کیوں نہیں سنی جا رہی؟؟؟
ان سب سوالات کا ایک سادہ سا جواب ہے کہ ہم متحد نہیں اسیران کے لیے دھرنہ ہو یا مقتولین کے لیے کون نکلتا ان کے اہلِ خانہ کےعلاوہ آخر ہم کہاں ہیں؟؟؟ ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہمدردی کے چند بول بول کر ان کے ساتھ ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے۔۔ ہماری غلطی کہاں ہے آخر کیوں ہم گھروں میں بیٹھے رہتے اور ان اسیران ان مقتولین کے اہلِ خانہ ان کی مائیں بہنیں بیٹیاں سڑکوں پر آ جاتیں ہماری غیرت کہاں مر گئی ہے ؟؟؟ ہم نےان اسیران کے نام پر بڑے بڑے عہدے تو لے لیے لیکن اب ان کی اسیران کی لیے کچھ کرنا میں عزت میں کمی کیوں محسوس ہوتی؟؟؟ہمیں معصوم بچوں کی درد بھری آوازیں کیوں نہیں سنائی دیتی؟؟؟کیا اس اسیر سے کہ جب وہ رہا ہو کر لوٹے گا یہ برداشت ہو پاۓ گا کہ اس کی ماں،اس کی بہن،اس کی بیٹی رو رو کر اس کے لیے سڑکوں پر نکل آئی اور اس کی آہوں کا مذاق اڑایا گیا کیا وہ یہ برداشت کر پاۓ گا؟؟؟
اور ہمارے نوجوان جو جہادی جذبہ رکھتے ہوۓ گھروں میں بیٹھے ہیں جوان جو ملت کا ملک کا اہم کردار ہوتا،جس سے ملت کی عمارت مضبوط ہوتی جو کسی بھی تحریک کا روحِ رواں ہوتا کہاں ہے آج وہ ہمیں ان ماؤں،بہنوں کا ساتھ دیتے ہوۓ نظر کیوں نہیں آتا؟؟؟
ان تمام کا حل صرف ایک ہی ہے کہ جب لیڈر ساتھ ہو، شجاع ہو تو عوام بھی نکلتی ہے۔۔۔
ہم وہ زبان استعمال کیوں نہیں کر رہے جو اس حکومت کو سمجھ آتی؟؟؟
ہم بیٹھے ہیں کہ کوئی خضر آۓ ہماری مدد کرے
کب تک اسی خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہنا ؟؟؟
ایسے سالوں بیٹھے رہیں تو بیٹھے رہیں کسی کی ذات پر فرق نہیں پڑنا ۔۔

اٹھیں لیڈروں سمیت اس جذبے کے ساتھ جو سب سے پہلے بیان کیا گیا کہ خلوص کی کس بلندی پر تھا وہ شخص کہ ناموسِ رسالت کے لیے اٹھا تو اپنی منزل کو جا پہنچا اس خلوص کے ساتھ شجاع بن کر اٹھیں کہ جان کی پرواہ نہ کریں جب آپ حق پر ہیں تو مثلِ حسینؑ نکل پڑیں۔۔۔
خدارا اٹھیں۔۔۔

اٹھو کہ جھکا دو کسی یزید کا سر۔۔۔
کہ اب چلو حسینؑ کی تقلید بھی کرے کوئی۔۔۔
کہ صرف سوگ منانے سے کچھ نہیں ہو گا۔۔۔
اٹھو کہ ہم بھی جُھکا دیں کسی یزیدکا سر۔۔۔
کہ صرف لہو کے اشک بہانے سے کچھ نہیں ہو گا۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے