عدالت عظمی کا فیصلہ
تحریر: سید شکیل بخاری ایڈووکیٹ
راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر سال 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دھرنا دیا گیا جس میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف مطالبات رکھے گئے ، اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی ،
دھرنا مظاہرین نے مکمل طور پر ٹریفک معطل کردی اور مطالبات کی منظوری تک اسے ختم نہ کرنے کا اعلان کر لیا تھا ، البتہ اس دھرنا کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفی کے بعد ہوا گیا تھا ،
اس کے بعد ملک کے اندر مختلف اوقات کے دوران ٹی ایل پی کی جانب سے دھرنے اور احتجاج کیے جاتے رہے ،
فیض آباد دھرنا کے حوالے سے عدالت عظمی کے دو رکنی بینچ جس میں قاضی فائز عیسی اور اسکی سربراہی جسٹس مشیر عالم کررہے تھے نے اٹارنی جنرل ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیرمین پیمبرا کو سننے کے بعد 22 نومبر 2018 کو فیصلہ دیا، یہ ٹی ایل پی کے مستقبل کے حوالے سے مکمل ہدایت نامہ تھا جس پر حکومتوں نے کوئی توجہ نہ دی ،
اس ججمنٹ میں 12 مئی 2012 کراچی واقعہ کا حوالہ بھی دیا گیا ،
اس فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کوئی شخص دوسروں کو نقصان پہنچانے کا فتوی دے اور دوسروں کے حقوق غصب کرے تو اسکے خلاف Pakistan penal code اور Anti Terrorism Act کے تحت کاروائی ہونی چاہئیے اسی طرح Electronic Crimes act کے تحت کاروائی کی جانی چاہیے ،
اس فیصلے میں پیمبرا کو مناسب ہدایات بھی دی گئی ،
اس فیصلے میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داریاں اوا کرنے کو کہا گیا اسی طرح پولیس کو ہدایات دی گئی دھرنوں اور جلوسوں کو مینج کرنے کے حوالے سے موثر پلان مرتب کریں
اس فیصلے میں قابل ذکر نقطہ اس سیاسی جماعت یعنی تحریک لبیک کے خلاف قانونی کروائی کرتے ہوئے ذرائع آمدن معلوم کیے جائیں اور اسکے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنا فیصلہ سنائے اور اسے اگر مناسب سمجھے تو بین کرے ،
اس فیصلے میں تمام ایجنسیز ، ادارے ، اور افواج پاکستان کو مخاطب کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ آئین پاکستان مسلح افواج اور اداروں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا ، کہا گیا کہ وزارت دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان ان افراد کے خلاف قانونی کارائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے ،
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہا گیا ہے کہ’تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے’
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔
فروری میں سنائے گئے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سنہ 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیے گئے دھرنے کے علاوہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آمد کے موقع پر فائرنگ سے درجن سے زائد وکلا کی ہلاکت کے واقعے میں ایم کیو ایم کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
میرے خیال سے حکومت پاکستان کو اسی فیصلے کے تناظرمیں مذہبی سیاسی جماعت کے خلاف کاروائی کرنا تھی جو کہ درست اور قانونی کے مطابق تھا ،
اگر احتجاج کی بنیاد پر سیاسی اورمذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا جانے لگا تو وطن عزیز کی کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جس نے جلاؤ گھراؤ نہ کیا ہو سوائے ان فرزاندان علی ابن ابی طالب کے جنہوں نے سرزمین پاکستان پر 100 سے زائد جنازوں کو رکھ کر بھی پر امن احتجاج کیے ہیں ، اورآج سینکڑوں جوانوں کے جبری لاپتہ ہونے کے باوجود پرامن طریقے سے آواز حق بلند کررہے ہیں .