ایک جبری گمشدہ کی آپ بیتی

حصہ دوم

تحریر : مشکِ زہراء

ظلم کے خنجر کو بڑی حیرت ہے

میری زندگی اس اندھیرے زندان میں اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہی تھی جہاں مجھے سننے کو خدا تھا اور میری تکلیف سمجھنے کے لیے بھی خدا کی ذات تھی..♥️

میرا ذہن اس وقت میں چلا گیا جب میں تیسری کلاس میں تھا اورمیرے گھر کے افراد تنظیمی تھے۔تیسری کلاس سے میرا تنظیمی سفر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی بنائی گئی تنظیم آئی ایس او سے شروع ہوا .
1994 میں جب چھٹی کلاس کا طالبعلم تھا توشہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے دو بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا. انکی شخصیت نے اتنا متاثر کیا کہ میں نے کبھی دین کے کیے کوتاہی نہ کی.ان ملاقاتوں میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی باتوں میں اک بات میں نے زہن نشین کر لی اور اس وقت جب کہ میں زندان میں تھا مجھے بھولی نہیں اور اس بات پہ قائم رہا.شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایاکہ :
حق کی شناخت کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا حق کی توہین ہے
کبھی کبھی کسی کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ وہ آس پاس سب کو متاثر کرتا ہے بلکل ویسے ہی جیسے ایک پھول اپنی خوشبوسےاردگردکے ماحول پر اثراندازہوتاہے۔🌹

اس زندان کی خاموش دیواروں کے درمیان میرے پاس فقط یہی یادیں تھیں جو میں یاد کر کہ زندگی کے آخری دنوں کے لمحات گن رہا تھا.انھی یادوں میں محوتھاکہ دروازہ کھلنے کی آواز سے چونکا۔
اچانک بیرک کا دروازہ کھلا..
ملک پاکستان کا اک رکھوالا اندر آیا اور میرے گلے لگ کر رونے لگا.میں نے حیرت سے اسے دیکھا
تو کہنے لگا :

تمہارے والد و والدہ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ انتقال کر گئے ہیں۔ تمہیں ان کے پاس جانے کی اجازت نہیں
لیکن میں نے آفیسر سے منت سماجت کر کہ اس شرط پہ ان سے اجازت لی ہے کہ وہ تم سے جو پوچھیں تم ہاں میں جواب دوگے۔میں اس خبر کو سن کر لمحے بھر کو ٹھہر سا گیا
پھر میں نے اطمینان سے کہا :
خدا کی طرف سے قضا آئی تھی اور خدا نے اپنی امانت واپس لے لی ۔میرا بھائی موجود ہے وہ مراسم تدفین انجام دے سکتا ہے
میرے جانے سے وہ زندہ نہیں ہو سکتے۔اس لیے مجھے فرق نہیں پڑتا.
اور چٹاخ کی آواز سے اک زور دار تھپڑ اچانک میرے منہ کی زینت بنا.
پھر وہ چیخنے لگا…
تم کیا چیز ہو ؟
کہ ہر بات تم پر بے اثر ہے
منہ کھولنے کو تیار نہیں ہو

اور پھر وہ چلا گیا۔میں اسی زندان میں پھر سے خود کو تسلی دینے لگا اور سوچنے لگا .
جب رہبر معظم زندان میں اسیر تھے اور انکی زندان کی یادوں میں جو تلخیاں لکھی گئیں تھیں آج وہی میرے ساتھ دہرائی جا رہی ہیں۔میرے پاس اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ایسی عظیم شخصیات کی زندگی کہ پہلو تھے جو مجھے اس تکلیف دہ منظر میں حوصلہ دے رہی تھیں۔اور مجھے بھی اسی صبر و تحمل سے برداشت کرنا ہے۔میرا جرم نہیں یے
میں بے جرم و خطاء جبری طور پہ اسیر کیا گیا ہوں

میں پھر سے اپنی ان یادوں میں چلا گیا جب میں 2006 میں دینی تعلیم کے لیے قم کا رخ کیا.
قم میں اچھے اساتذہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کی
اور 2008 میں واپس پاکستان آگیا
یہاں آتے ہی مجھے چند کاموں کی مسئولیت دی گئی
جو میں نے جی جان سے مخلصی کے ساتھ نبھائی۔
2013 میں دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کی خواہش سے میں واپس ایران چلا گیا
جہاں حوزہ علمیہ قم میں متحرک طالبعلم ہونے کی وجہ سے مجھے شعبہ زائرین کی زمہ داری سونپ دی گئی ۔اسکے بعد حوزہ کی جانب سے ایک کورس کا اجراء کیا گیا۔جس میں 276 علماء کو وہ کورس کرا یا گیا
اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد تمام علماء کو واپس اپنے علاقے بھیجنا تھا تاکہ وہ وہاں کی عوام کو دینی تعلیم سے آگاہ کریں۔ جس میں احکام ,عقائد اخلاق وغیرہ شامل تھے.
جب میری سوچ یہاں تک پہنچی تو مجھے یاد آیاکہ اس گروپ کی زمہ داری مجھے دی گئی تھی جو یہ کورس کر کے پاکستان پہنچا تھااور قائد کے بیان میں جس کورس کا زکر تھا وہ یہی تھا۔میرا زہن تیزی سے کڑی سے کڑی ملانے لگا کہ آخر میری اس جبری گمشدگی کی وجہ کیا ہے۔؟
اور اس بات پرآ کر میں نے جواب پا لیا تھا کہ ہمارے ملک کے رکھوالوں نے بے گناہ اس لیے اغواء کیا ہے کہ انکو لگتا ہے یہ کورس عسکری تربیت پہ مشتمل تھاجب کہ حقیقت میں وہ کورس دین اسلام کے اصول ,عقائد اخلاق ,معیشت اسلامی ,نظام حکومت اسلامی وغیرہ پہ مشتمل تھا.
یعنی میری زندگی کے یہ 45 دن اس غلط فہمی کی بنیاد پہ ضائع ہو رہے تھے جو ہمارے قائد کی جانب سے شروع ہو کر ملک پاکستان کے رکھوالوں تک پہنچی تھی

آہ………

یعنی اس بنا پہ مجھے اس اذیت ناک تکلیف سے دوچار ہونا پڑ رہا تھا.اس دوران کتنی ہی ایذائیں دی گئیں اور کیا کچھ برداشت کرنا پڑا وہ تکلیف بھلائی نہیں جا سکتی
کیونکہ میرا جسم جگہ جگہ سے زخمی تھا
اور خون مسلسل رستا تھا
میں چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا تھا
میری ٹانگوں میں وہ ہمت نہ تھی کہ میں چل پاوں….!!!

مگر اس سب کو پوچھنے والا کون تھا۔؟؟؟

کون تھا جو سوال کرتا کہ بے جرم و خطا اٹھا کر لے جانے والوں جرم تو بتا دو۔ ؟؟

کون تھا جو میرے ان 45 روز کا ازالہ کرسکتاتھا ؟؟
45 روز بعد بیرک کا دروازہ کھلا ….

میں بمشکل نماز ظہر پڑھ کر عصر پڑھنے والا تھاکہ گارڈ نے کپڑے دیے کہ پہن لو ۔میں نے نماز مکمل کی اور کپڑے پہنے
دو بندے اندر آئے اور گھسیٹ کر لے گئے۔
مجھے کہا گیا تمہیں دوسری جگہ لے جایا جا رہا ہے تمہارا آخری وقت قریب ہے اس لیے تمہیں مار دیا جائے گا
کلمہ پڑھ لو.

انھوں نے پھر کہا :
ہم آخری بار پوچھ رہے ہیں ہمارے سوالات کے جوابات ہاں میں دو
ورنہ شوٹ کر دیے جاو گے
میں نے کہا : مجھے جب معلوم نہیں تو جواب ہاں میں کیسے دوں کہ پھر اسی جواب کو لیکر مجھے مزید پھنسایا جائے

انھوں نے آنکھوں پہ پٹی باندھی اور گاڑی میں ڈال کر لے گئے
اچانک گاڑی کو روکا
کسی رکھوالے کی آواز آئی…
یہاں نہیں. جنگل میں لے جاو وہیں مار کر پھینک دینگے
اب مجھے دل سے سکون ہوا کہ یعنی وقت شہادت قریب ہے.میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر آمادہ کر لیا
پھر گاڑی رکی …..
اور انھوں نے مجھے گاڑی سے دھکا دے دیا۔میں 5 منٹ اس انتظار میں تھا کہ اب شوٹ کر دینگے ۔میرا سر اس وقت کسی چیز سے ٹکرایا۔لیکن 5 منٹ میں کچھ بھی نہ ہوا تو میں نے آنکھوں سے پٹی ہٹائی۔
دیکھا تو وہاں کوی موجود نہ تھا
میری حالت اس وقت وہی تھی جیسے کتاب من زندہ ام میں معصومہ آباد کی تھی
کہ جسے خبر نہیں تھی کہ وہ آزاد کی جا رہی یے یا دوسری جگہ منتقل۔
وہ اک مالٹے کا باغ تھا جہاں مجھے پھینکا گیا تھا
میں اٹھ کر بیٹھا
اور دعا کی کہ کاش کوئی لے جائے
کیونکہ میری حالت ایسی نہ تھی کہ میں چل کر روڈ تک بھی جا سکوں ۔بہت مشکل سے خود کو گھسیٹ کر میں روڈ کے قریب پہنچا
اور وہاں بیٹھ گیا
میری حالت ایسی تھی کہ سر کے بال منڈ چکے تھے
موچھیں نہیں تھیں
داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور حالت ایسی کہ کوئی پہچان نا سکتا کہ یہ کون ہے .
اچانک اک بائیک والا گزرا
جس کو میں نے اشارہ کیااور وہ رک گیا
میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے فلاں جگہ لے جاو
اس نے میری حالت دیکھی
میں نے اسے اپنے بارے بتایا تو وہ مجھے پہچان گیا
کیونکہ میں اک عالم دین تھا
اور دین کی تعلیم دینے والے کا یہ حال دیکھ کر وہ جوان حیران ہو گیا.میں نے اس سے موبائل مانگا تاکہ گھر کال کر کہ اطلاع دوں۔ اس نے اپنا موبائل دینے سے انکار کیا یہ کہہ کر کہ
ممکن ہے آپ کی وجہ سے مجھ پہ مسئلہ بن جائے
میں فقط اتنا کر سکتا ہوں کہ آپ کو پی سی او لے جاوں
وہاں سے آپ کال کر لیں
چونکہ میری حالت بہت خراب تھی اس نے کہا بائک پہ بیٹھیں

میں نے کہا : میں خود بیٹھ نہیں سکتا
اس نے میری مدد کر کہ مجھے بائیک پہ بٹھایا اور پی سی او چھوڑ گیا
وہ لمحہ ایسے تھا جیسے اک نئی زندگی میری منتظر تھی ۔ٹھنڈی ہوا 45 روز بعد میں محسوس کر رہا تھا ۔آسمان کی وہ پر سکون فضا دیکھ پا رہا تھا
میں نے پی سی او پہنچ کر گھر کال کی میں فلاں جگہ ہوں مجھے آ کر لے جائیں جس کو کال کی وہ مجلس میں تھے
وہاں زاکر منبر پہ مجلس پڑھ رہا تھا۔ اس نے کال بند ہوتے ہی کہا مولانا رہا ہو گئے۔
وہ آئے مجھے حمام لے گئے تاکہ اپنا حلیہ درست کر سکوں
کہ گھر والوں کو دیکھ کر تکلیف نہ پہنچے۔
البتہ میں بیساکھی کے سہارے گھر پہنچا کہ میری حالت دیکھ کر میرے گھر والوں کی حالت غیر ہوگئی
میری والدہ کی وہ تکلیف جو انھوں نے میرے بعد محسوس کی وہ ناقابل بیان ہے..
میں 5,6 دن پاکستان کی سرزمین پہ رہا۔وہ سرزمین جو اک محب وطن کا گھر ہوا کرتی ہے ۔جہاں اسے امن سکون آرام میسر ہوتا ہے۔مگر میرے لیے اس وقت وہ سرزمین فقط تکلیف کا سبب تھی ۔جس نے میری زندگی بازی بلکل پلٹا کر رکھ دی
میری واپسی کے بعد جب میرے خانوادہ کو اس قائد کے پاس لے گئے جن کے الفاظ کی بھینٹ میں بے جرم و خطا چڑھ چکا تھا۔
اس کے الفاظ نے میری ماں کا دل چھلنی کر دیا تھا ۔اس نے ملنے سے انکار کرتے ہوئے کہا :
”وہ مولانا دہشت گردی میں ملوث تھے اور میں کسی دہشت گرد کی فیملی کو ملنا نہیں چاہتا“
آہ…..یہ الفاظ کاش ادا نہ ہوتے
کہ میری بوڑھی ماں جس نے میری جبری گمشدگی کے دوران راتیں جاگ کر بے چینی و بے سکونی میں گزاریں۔جس کے بیٹے کا جرم یہ تھاکہ وہ دین کا طالبعلم ہے۔اس بیٹے کے لیے اپنوں نے ہی اس کی مدد اسکی بے گناہی کو ثابت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ الٹا یہ کہہ دیا کہ وہ دہشت گرد ہے……!!!!

اس لمحے میرا دل چاہا کہ کاش میری والدہ ان الفاظ کو سننے نہ جاتیں۔جو بظاہر لوگوں کے سامنے مظلومین کا حامی وناصر بنا ہو وہ مظلومین کے خانوادہ کا دل چھلنی کر رہا تھا۔
میرا خانوادہ اس دکھ کو لیے واپس آ گیا اور میں نے گزارش کی کہ مجھے واپس ایران جانا ہے ۔فلائٹ سے اک دن پہلے میں لاہور پہنچا تاکہ میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے درد دل بیان کر سکوں
اس کے بعد شہید محرم علی کے مرقد پہ گیا
وہاں شہید صفوی شہید محرم علی و دیگر شہداء سے توسل کیا کہ جیسے انھوں نے حق کا ساتھ دیا اور حق کا ساتھ نہ چھوڑا..آج اتنی تکلیف و رنج کے باجود میں بھی حق سے پیچھے نہ ہٹوں گا
اور جب تک زندہ ہوں حق پہ قائم رہونگا ان شاءاللہ
پھر میں ائیر پورٹ پہنچا
جہاں سے میری قسمت مجھے سرزمین پاکستان جس سے محبت میری رگ و جان میں پیوست ہے
وہاں سے دور لے گئی جہاں مجھے صحتیاب ہونے میں وقت لگنا تھا تاکہ اک بار پھر اپنے ملک لوٹ کر اپنا فریضہ اس ملک کے لیے انجام دے سکوں ……

اور آخر کار میں سرزمین ایران پہنچ گیا……

جاری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے