حالات حاضرہ اور تربیتی فقدان
تحریر:ر مہر عدنان حیدر
ملت تشیع اسلام کا روشن ترین چہرہ ہے ۔ ایک ایسا چہرہ جو اندر اور باہر ایک سا ہے ۔ ایک ایسا چہرہ جو بالکل صاف اور شفاف ہے یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بات ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک ہم ہی وہ واحد ہیں جو دوسروں کو اتحاد کی دعوت اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کا درس دیتے ہیں ۔ ہم ہی ہیں جو مظلوم کی مدد یا نصرت کرتے وقت اس کا مسلک فرقہ اور مذہب دریافت نہیں کرتے ۔اور دنیا کو حسینیت کے ذریعے آمن محبت اور پیار کا درس دے رہیں ہیں
گویا ہم اس آیت کی صورت ہیں کہ !
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
سورتآلعمران_آیت_104
مگر میرا موضوع ان تمام حقائق کے بیان کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت کی جانب توجہ دلانا ہے وہ یوں کہ
بدقسمتی سے ملت تشیع پاکستان اپنے بلند اہداف سے بہت پیچھے کی طرف سفر کر رہی ہے ۔ اور اس وقت طرح طرح کے انتشار کا سامنا کر رہی ہے اور اُن فضائل اور کمالات سے الگ تھلگ ہے جو عالمی طور پر تشیع کے دم سے وجود پذیر ہو رہے ہیں ۔ جس کی وضاحت یوں دی جا سکتی ہے کہ پاکستانی شیعت داخلی طور اس قدر تقیسم ہے کہ وہ خارجی حقائق میں ساتھ دینا تو دور کی بات ہے ان حقائق کو تسلیم بھی نہیں کر پاتی اور نہ ہی ان سے کچھ سیکھ یا حاصل کر پاتی ہے ۔
اس کی وجوہات بتانے والوں نے بھی بتائی ہوگی مگر حقیر کی نظر میں اس کی بنیادی وجہ اپنے اصل حدف اور مقصد سے ہٹ جانا ہے ۔
جو بغیر کسی مبالغہ آرائی کے اس طرح بیان کی جاسکتی ہیں کہ آج ملت کے علماء نے اپنا اہم فریضہ ہی چھوڑ دیا ہے یا فراموش کردیا ہے اور وہ اہم فریضہ ملت کے نوجوانوں کی تربیت کرنا تھا ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے علماء مذہبی تنظیمیں حد سے زیادہ سیاسی ہوگئی ہیں ۔ جس کا نتیجہ علمی میدانوں اور عملی میدانوں میں افراد کی کمی اور جہالت کے غلبے سے لگایا جا سکتا ہے ۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باب العلم کے ماننے والوں میں ایک طرف تو جہالت تہہ در تہہ اپنے راستوں کو ہموار کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے علماء اور مذہبی تنظیمیں ہیں جو اپنے دائرہ کار کو فراموش کر کے اپنی الگ سوچ اور فکر پر گامزن ہیں ۔اور ہر جگہ مصلحت یا تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں.
گویا آج اہل علم سب کچھ کرنا چاہتے ہیں سوائے ملت کے نوجوانوں کی تربیت کرنے کے جس کا نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک وقت میں جہاں امام بارگاہ کو یونی ورسٹی ِ امام حسین کا درجہ حاصل تھا ۔ آج وہیں پر بہت کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے جو مقصد حسین کے خلاف ہو ۔
اور یہ تمام چیزیں کوئی ملت اس وقت برداشت کرتی ہے یا سامنا کرتی ہے جب ملت کے اندر لاعلمی اور تربیتی فقدان ہوتا ہے کیونکہ انسان کی جتنی معرفت ہوتی ہے وہ اتنی حقیقت سمیٹتا ہے ۔اور جو جتنی حقیقت رکھتا ہے وہ اتنی ہی معرفت رکھتا ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علماء کرام ذاکرین عظام یا ملت کے خیر خواہ جہاں تک ہوسکے ملت کی تربیت کے حوالے سے کردار ادا کریں ۔ تاکہ ملت سیرت محمد و آل محمد کو آپنا کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے
حرف آخر میں ان تمام احباب سے معذرت خواہ ہوں جن کو میری تحریر سے تکلیف پہونچی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت ایک معاشرے کے کثیر کی نمائندگی کرتی ہے نہ کہ قلیل کی ۔ اس لیے وہ قلیل افراد اور علماء جو ملت کے لیے درد ِدل رکھتے ہیں اور تربیت کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔میں ان کی خدمات کو سلام ِ عقیدت پیش کرتا ہوں ۔