میں جھوٹ بولتی ہوں


تحریر : سیدہ حجاب زہراء نقوی

میں ہر روز اپنے کم سن بچوں سے جھوٹ بولتی ہوں، میں انہیں کہتی ہوں کہ تہمارے بابا آ رہے ہیں۔ وہ ہر روز اپنے معصوم انداز میں مجھ سے کہتے ہیں، سب کے بابا ان کے پاس ہیں ۔ ہمارے بابا کہاں ہیں گھر کیوں نہیں آتے ہمیں پیار کیوں نہیں کرتے۔ میں ریاستِ مدینہ سے سوال کرتی ہوں، انہیں کیا جواب دوں؟ کیا آپ کے پاس ان تمام سوالوں کے جواب ہیں؟ کیا کوئی جواب ہے اس برائے نام ریاستِ مدینہ کے پاس؟ میں کیسے اپنے بچوں کو دلاسہ دوں ؟
انہیں سچ بتاؤں تو خدا کی قسم ہزاروں نعیم حیدر ، اظہر ، شیراز حیدر ، حسین احمد اور سلمان ( شیعہ لاپتہ افراد) پیدا ہو جائیں گے پھر تم کس کس کا اغوا کرواؤ گے۔
سچ تو یہ ہے کہ تمہارے بابا کا جرم حسینیت ہے، تمہارے بابا شام جانے والے تھے جو انکا جرم ہے، انکا جرم حضرت زینب س کی آواز پر لبیک کہنا ہے، یہ تمہارے بابا سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایک نئی کربلا نا وجود میں آ جائے اسی لیے انہیں اغوا کر لیا، یہ تمہارے شجاع بابا سے خوف زدہ ہیں۔

تم لوگ کس گمان میں ہو، میں ڈر گئی ہوں یا مجھ پر خوف طاری ہے، نہ میں خوف زدہ ہوں اور نہ میری جیسی لاپتہ افراد کی خواتین، ہوش میں آ جاؤ !! میں خوف میں آنے والی نہیں ہوں، نہ میں ڈری ہوئی ہوں نہ میں تھکی ہوں کیونکہ میں زینبی ہوں، تم نے میرے شوہر کو اغوا کیا، کوئی بات نہیں میرے پاس اسی عظیم انسان کے بیٹے ہیں، انہیں بھی اغواء کر لو، میں پھر بھی نہیں تھکوں گی کیونکہ میں زینبی ہوں۔
پیاری بیٹی! انہیں علم ہو گیا ہے کہ یہ قوم موت سے نہیں ڈرتی بلکہ شہادت کو سعادت سمجھتی ہے اسی لیے انہوں نے تمہارے بابا اور اُن جیسوں کو اغوا کر لیا ہے ان کے خیال میں یہ سلسلہ رک جائے گا مگر ایسا نہیں ہے، اگر شہادت وراثت ہے تو افکارِ خمینی اور شجاعت بھی وراثت ہے جو ہمارے لہو میں ہے۔
اس ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک باپ کے لاپتہ ہونے کے بعد اسکی کُل کائنات اس دنیا میں آتی ہے اور وہ اسے دیکھ تک نہیں پاتا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ان اونچے محل نما قبرستان میں بیٹھے ہوئے برائے نام زندہ مگر مردہ ضمیر لوگوں کو کہ ایک ماں آج بھی اپنے جوان بیٹے کی راہ دیکھتی ہے، ایک جوان بیوی اپنے عزیز شوہر کا انتظار کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے