گمشدگی کی سائنس

تحریر :ابن حسن
جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والوں میں سے چند ایک سے اتنی سی آشنائی ہماری بھی ہے جتنی ایک سماج میں رہتے ہوئے زندگی کے کسی موڑ پر ملنے والے دوسرے بعض افراد سے ہوجاتی ہے۔ کچھ دن سے جبری گمشدگیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے اہل خانہ احتجاج کررہے ہیں تو ہمارے ذہن میں بھی چند خدشات اور صدمات تازہ ہوگئے ہیں۔ عدل و انصاف کے نظام کو نظر انداز کرکے شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا اقدام غیر قانونی، غیر مہذب اور انتہائی سفاکانہ ہے۔ یہ بین الاقوامی تقاضوں اور رجحانات کے بھی خلاف ہے۔ یہ اقدام مذہبی تعلیمات اور نظریہ پاکستان سے بھی کسی قسم کی مطابقت نہیں رکھتا لیکن مسلسل انجام بھی دیا جا رہا ہے اور وہ بھی ملکی سالمیت کے نام پر جبکہ یہ اقدام مسلسل قومی یک جہتی کو کمزور کررہا ہے۔ سچ بتاؤں تو چند شب سے نیند ٹھیک سے نہیں آتی، رات دروازہ ہوا سے بھی کھڑکے تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے کہ کہیں دروازہ توڑنے والے نہ آگئے ہوں۔ دل میں کوئی چور بھی ہرگز نہیں ہے۔ بچوں کو سوتے وقت دیر تک دیکھتا ہوں اور دل کے کسی خانے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں یہ ملاقات آخری نہ ہو اور کل وہ بابا کو نہ دیکھ سکیں۔ عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے۔ خوف اور وحشت نے سوچنے سمجھنے اور عمل کی صلاحیت کو کافی متاثر کیا ہے۔ اہل خانہ کو بتایا ہے اس دیس میں رہنا ہے تو ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ وہ کہتے ہیں یہاں نہیں رہنا! واپس چلے جاتے ہیں۔ انہیں بتایا ہے کہ یہ ملک ہمارے ابا و اجداد نے قربانیاں دے کر بنایا ہے۔ اس مٹی کے ساتھ ہمارا صدیوں کا رشتہ ہے۔ اس مٹی میں ہمارے پیاروں کا نہ صرف خون پسینہ بلکہ گوشت پوست شامل ہے۔ ابھی گزشتہ سال ماں جیسی ہستی کو اسی خاک کے سپرد کیا ہے۔ اس مٹی اور اس وطن سے نہ صرف ہماری یادیں بلکہ ہماری شناخت وابستہ ہے، اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہم اس مٹی کے بیٹے ہیں اور بیٹے ماں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟۔ وہ کہتے ہیں اگر اس سرزمین اور اس ملک اور خاک سے ہمارا رشتہ اتنا گہرا ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟۔ میں نے بتایا ہے کہ کہتے ہیں یہ ملکی سالمیت کا تقاضا ہے؟۔ یہ سائنس ذرا ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ سچ بتاوں تو سمجھ میں میرے بھی نہیں آرہی۔ اگر کسی کو سمجھ آئے تو بتائیے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے