ذمہ دار کون؟؟

تجزیہ و تحریر ،، ثقلین خان سرگانی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہودی و صیہونیت کا عوام اور سیکیورٹی اداروں میں ٹکراو کا بھیانک منصوبہ مستقبل قریب میں پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
گورنمنٹ آف پاکستان، افواج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے بارہا یہ کہا اور بتایا گیا کہ ملک و اسلام دشمن بیرونی انٹیلیجنس کی طرف سے عوام اور اداروں میں ٹکراو لانے کی بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلیئے مختلف سازشوں پر کثیر سرمایہ کاری بھی کی جارہی ہے۔
حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے بارہا جاری کردہ اس بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر بالکل واضع ہو جاتا ہے کہ دشمن کے اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہچانے میں سب سے بڑا کردار بھی پاکستان کے سکیورٹی ادارے ادا کر رہے ہیں۔
جس کا واضع ثبوت 2012 میں جب یوسف رضا گیلانی پرائم منسٹر تھے تو موجودہ پرائم منسٹر جناب عمران خان صاحب، اپوزیشن میں رہتے ہوئے جبری گمشدگیوں پر آواز اٹھایا کرتے تھے۔ اس وقت جیو نیوز کے ایک پروگرام میں حامد میر صاحب نے عمران خان صاحب سے سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کالے شیشے والی گاڑیاں آتی ہیں اور لوگوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت اور عدلیہ بھی اس ظلم سے بے خبر نہیں۔
اس پر پرائم منسڑ جناب عمران خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اوع اس ظلم کو ہر حال میں روکوں گا یا مستعفی ہو جاوں گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پرائم منسٹر جناب عمران خان صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنے وعدے کے مطابق یہ سلسلہ روک دیا ؟
جن نوجوانوں کو دن دیہاڑے سب کے سامنے گھروں سے اٹھایا جاتا ہے اور کئی ماہ بعد کسی اور علاقے میں فرضی کہانی بنا کر اغوا شدہ کو اس کہانی کے کردار کے طور پر پیش کر کے ظلم و ستم کے ساتھ اقرار کروا کے جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں جکڑ کر عمر قید تک کی سزائیں دلوائی جاتی ہیں، ان اغوا شدگان کے اہل خانہ، اہل علاقہ اور دوست و احباب کے دلوں میں اپنے ہی اداروں کے ساتھ محبت و اعتماد کا رشتہ پروان چڑھ رہا ہے یا احساس ظلم و ستم کے ساتھ نفرت و بغاوت کا؟؟
کیا وہ معصوم بچے جو اپنے والدین کی اسیری کے زمانے میں بھوک و افلاس کہ زندگی بسر کر کے اپنے پیاروں کو تنہا دفن کر کے پروان چڑھ رہے ہیں اور وہ خاندان جن کے پیاروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اٹھایا اور بے گناہ ہونے کے باوجود جھوٹے مقدمات میں عمر قید کی سزائیں دلوائی جا رہی ہیں اپنے ہی گھروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ؟ اور مشکل وقت میں یہ لوگ اپنے اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے اعتماد کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پھر مسلح جدوجہد اور بغاوت کے ساتھ خود کو محفوظ کرنے یا لڑ کر مرنے کو ترجیع دیں گے؟؟
کیا پاکستان کے عام شہری کو آذادی رائے کا حق حاصل ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں بھی شام، یمن و بحرین کی طرح حکومت و اداروں کے نا روا اقدامات پر آواز اٹھانے والوں کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہو؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے حالات بھی تیزی کے ساتھ شام، یمن و بحرین جیسی شورش اور بربادی کی طرف جا رہے ہوں ؟؟
خدا نخواستہ اگر ایسا ہے تو اس کا ذمہ دار، موجب و محرک کون؟
کون ہے جو نسل آئندہ کو مسلح جدوجہد و بغاوت پر اکسا رہا ہے۔کون ہے جو عوام کے دلوں میں اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بو رہا ہے؟؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری پالیسیاں ہی یہود و صیہونیت کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہوں ؟
ملکی سلامتی تو داو پر لگ گئی اور اب تو ہم نے آئ ایم ایف سے معاہدے کی صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو گروی رکھ کر شرائط کے طور پر ملکی معیشت اور حکوتی خودمختاری بھی بیچ ڈالی۔ کہاں گئی ہماری حب الوطنی کہاں گئی ہماری خود مختاری اور کہاں گئی ہماری آزادی۔
کہیں ہمیں بھی بعض دوسرے ممالک کی طرح قرض میں باندھ کر قرض کی معافی گروی معیشت و خودمختاری کو آزاد کروانے کیلیئے نا جائز ریاست اسرائیل کو قبول کروانے کی طرف تو نہیں لے جایا جا رہا؟؟
جس طرح اسلام کی مضبوط ترین ریاست ،
ریاست عثمانیہ کو اسٹیٹ بنک گروی رکھنے کے بعد ہی توڑا جا سکا اور کچھ ممالک سے قرضوں کی معافی پر اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کروایا گیا۔
کہاں ہیں ہمارے مخلصین وطن، کہاں ہیں ہمارے سیاسی و سماجی حلقے اور کہاں ہیں ہمارے اسلامی و دینی بزرگان۔
کیا انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ عوام کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے؟
جن لوگوں کو رات گئے یا دن کی روشنی میں اپنے ہی گھروں سے زبردستی اٹھا لیا جائے اور کئی ماہ کے ظلم و ستم کے بعدجھوٹے الزام میں تا عمر قید کر لیا گیا ہو اس کا درد وہ خود یا ان کے بیوی بچے اور والدین جانتے ہیں۔
ان کے دلوں میں کیا لاوہ پک رہا ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کیونکہ یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو جھیل رہا ہو۔
یہ مزہبی و دینی رہنما ہوں ، سیاسی و سماجی کارکن ، حکومت یا حکومتی و سیکیورٹی ادارے، سب کیلیئے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ ظلم و ستم آخر کب تک ؟
قوم کا صبر اور خاموشی جس دن ٹوٹے گی ان سب کا انجام کیا ہو گا اور اس سب کا ذمہ دار کون؟؟

One thought on “ذمہ دار کون؟؟

  • 04/05/2021 at 3:00 شام
    Permalink

    بهت خوب.سچ کها جناب بلکل سچ.

    Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے