کیااغواکاروں کو جبری گمشدگی کے جرم میں انصاف کے کٹہرے میں لاناچاہیے.؟

تحریر:توقیر کھرل

پچھلی حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا تھا جس کے تحت شہریوں کو لاپتہ کرنے والے اغواء کاروں کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا تھا مگر صد افسوس اس کمیشن کی رپورٹ ہی” لاپتہ "کردی گئی تھی ۔

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے یہ بتایاتھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کمیشن جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد اور اداروں کو ذمہ دار قرار دینے میں ناکام ہوگیا ہے تاہم اس کے بعد سابق حکومت کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے شہریوں کولاپتہ افراد کرنے میں ملوث افراد اور اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانے کی تجویز دی تھی اور ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کی تجویز بھی تھی ۔اس کمیٹنی نے کمیشن کے سربراہ سے حراستی مراکز میں موجود افراد کا ڈیٹا اور ان کے کیسز کے بارے میں معلومات جمع کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
حکومت بدلی تو جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کی کاغذی کاروائی بھی کی گئی
تحریک انصاف حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انسانی حقوق کے اجلاس میں کیا گیاتھا کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کسی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کےلیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بارے یہ بھی کہا تھا کہ اس فیصلے کے بعد جو لوگ شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے، سول عدالتوں میں ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔

گمشدہ افراد کے بارے حقائق کچھ بھی ہوں لیکن یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرے اور ایسے مجرموں کے ساتھ ساتھ کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کو بھی یقینی بنائے جو پاکستان کے اداروں کی ساکھ کو خراب کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے