جبری گمشدگی ملکی سالمیت کے لیے!
تحریر: علی زین
گزشتہ شب ایک مختصر تحریر کہ جو جبری گمشدگی کے خلاف لکھی کے جواب میں چند نام نہاد محب وطن نے لمبے لمبے بھاشن دئیے کہ یہ سب ملکی سلامتی کیلیے کرنا ضروری ہوتا ہے. تمام ممالک میں تمام انٹیلی جنس ادارے اس طرح کا کام کرتے ہیں تا کہ ملکی سلامتی و امن عامہ برقرار رہ سکے وغیرہ وغیرہ…
عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جس جگہ بھی یہ بات کی جائے تو آگے سے اسی طرح کا ملتا جلتا رد عمل دکھائی دیتا ہے لیکن یہ رد عمل اس طبقے سے ہی ملتا ہے جو اب تک اس "ملکی سلامتی” کے پینترے سے محفوظ ہے دوسری طرف جس طبقے یا علاقے کا کوئی ایک فرد بھی اس اوچھے ہتھکنڈے کا شکار ہوا ہے اس طبقے کا جواب نا فقط یہ کہ مختلف ہوتا ہے بلکہ شدت سے بھرپور اور سوائے نفرت و ملامت کے کچھ نہیں ہوتا اس کی واضح مثال پاکستانی بلوچ کمیونٹی سے لیکر مذہبی بنیادوں پہ نشانہ بننے والا ایک خاص مکتب ہے.
بلاشبہ جبری گمشدگی تمام اقوام عالم میں ایک قابل نفرت اور مجرمانہ عمل ہے. اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کے باوجود کوئی ملک اس عمل سے خالی نہیں ہے ہر ملک کی ایجنسیز ملکی بقا کی خاطر اس طرح کا عمل کرنے پہ مجبور ہوتی ہیں مگر!!! آپ تاریخ کی کتابوں سے لیکر سابق انٹیلی جنس سربراہان کے انٹرویوز و کتب کا مطالعہ کر لیں یا دیگر تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس سب کی وجوہات کُرید لیں آپکو ہر ملک میں گرفتار افراد شدید مجرم ہی ملیں گے یا کم سے کم ایسے افراد جو شدت پسندی پہ ابھار رہے ہوں. آپ دیگر تمام ممالک میں دیکھیں گے کہ وہاں مجرم کو جبری گمشدہ کرنے سے پہلے حتی الامکان شواہد یکجا کئے جاتے ہیں اور بہت جلد منظر عام پہ لا کے ہر کام کی وجوہات بتانا اداروں پہ لازم قرار دیا جاتا ہے.
مگر افسوس صد افسوس کہ مُلکِ عزیز میں الٹی گنگا بہتی ہے. یہاں احسان اللہ احسان جیسے بدنام زمانہ طالبان کے سربراہ کو تو گرفتاری کے بعد بھی رہا کر دیا جاتا ہے لیکن معاشرے کے عام طبقے کو نہایت بزدلی سے شکار کیا جاتا ہے کبھی ذاتی عداوت و دشمنی کی بنیاد پہ تو کبھی سعودی و امریکی ایما پہ… یہاں کبھی بیلنس پالیسی کے تحت اغوا کیا جاتا ہے تو کبھی اپنی ملت کیلیے فعالیت کی بنا پہ. یہی وجہ ہے کہ اغواء شدگان میں زیادہ تر ایسے افراد ملینگے جو نفیس و شائستہ طبیعت کے حامل معاشرے کے بہترین دماغ افراد ہونگے.
میں یہ نہیں کہتا کہ تمام جبری گمشدہ بے گناہ ہی ہیں ممکن ہے ان میں سے کوئی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا ہو مگر یہ بات تو واضح ہے کہ تمام تر افراد کو جبری حراست میں لینے والے ادارے شدید جرم کے مرتکب ہوئے ہیں خواہ بے گناہوں کو کیا ہو یا مجرموں کو، ایک باشعور قوم کبھی بھی اس طرح کی گھٹیا حرکت کو ملکی سلامتی نہیں کہہ سکتی کیونکہ یہ عمل ایک انسان پہ نہیں بلکہ پورے معاشرے اور تمام نسلوں کو ملک و اداروں کے خلاف کر دیتی ہیں.
ایک جوان جبری گمشدہ کے بوڑھے والد سے بات ہوئی تو کہتے ہیں "سادہ سی بات ہے کہ ایک بندہ اگر مجرم ہے اور اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو دن دیہاڑے اس کے خلاف وارنٹ گرفتاری لے کے آو گرفتار کرو مقدمہ چلاؤ پھر بے شک پھانسی دے دو بلکہ جرم ثابت ہونے پر ہم خود اپنے بچوں کو تختہ دار پر لٹکائیں گے مگر یہ کیا ہوا کہ رات کے 2، 3 بجے گھر میں گھس کےوالدین، بیوی بچوں کے سامنے کسی کو لے جانا اور پھر اس کا پتا ہی نا ہونا کہ کہاں ہے؟ "
اس طرح ٹھپہ لگ جاتا ہے کہ یہ مجرم ہے تو ہی تو پکڑا ہو گا وہ سارا خاندان پورے معاشرے کے سامنے مشکوک ہو جاتا ہے.
اب اگر سال 2 سال بعد بندے کو بے گناہ کہہ کے رہا بھی کر دیں تو اس کی اور اسکے سارے خاندان کی زندگی تباہ ہو چکی ہوتی ہے اور ان کے دلوں میں ان کیلیے سوائے نفرت کے کچھ نہیں ہوتا.
در حقیقت کسی کو جبری گمشدہ کر لینا اُسے قتل کر دینے سے بھی زیادہ اذیّت ناک ہے خود مغوی کے لیے بھی اور متعلقین کے لیے بھی۔۔۔ جیسے کہ کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو اداروں نے اغواء کیا 3 سال شدید ترین جسمانی، ذہنی، قلبی و روحانی تشدد کا شکار رکھا اور 3 سال بعد "سوری آپ بے گناہ ہو غلطی ہو گئی” کہہ کے رہا کر دیا.. اب جب وہ واپس آیا تو سب بدلا ہوا تھا اسے نوکری سے نکال دیا جا چکا تھا معاشرہ اسے اور اس کے اہل خانہ کو دہشت گرد ڈیکلئیر کر چکا تھا اور اب اسے تمام عمر "سوری تم نے گناہ ہو” کے باوجود اس معاشرے میں کسم پرسی کی حالت میں گزارنی ہے.
مختصر یہ کہ جبری گمشدگی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پورے پورے خاندان اور ان کی آنے والی نسلوں تک کو ریاست دُشمن دہشت گرد بنانے کے مترادف ہے نا کہ ملکی سلامتی امن عامہ…