خوشبو بھی سلاخوں میں کبھی قیدہوئی ہے .؟
تحریر :منتظر عدل
جب میں نے یہ جملہ پڑھا تو اس کے مفہوم نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا ۔ کیا مطلب ہے اسکا ۔۔۔ میں نے اپنی ارض وطن کے بارے میں کچھ باتیں سنیں ۔ معصوم بچیاں اپنی نم آنکھوں کو لئے مجھ سے سوال کرتی ہیں۔
تمھیں معلوم ہے میرے بابا کو کہاں لے گئے ہیں؟
ایک عمر رسیدہ بیمار ماں کی
آہوں میں سوال ہے۔۔
کوئی آواز دو ! اسے خبر دو ! ماں کے دل کا چین آخری سانسوں میں نہ چھینے۔ ہاں ! میرے ارض وطن کے رکھوالوں سے ، ہمارے رکھوالوں سے ہمیں خطرہ ہے ، جب رکھوالے دشمن سے گٹھ جوڑ کر لیں تو کیا ہوتا ہے اس قوم کا؟ ،پھر ان کا محافظ کون ہوتا ہے؟
سنا ہے جب ایک ڈاکٹر ، ایک انجینئر ، ایک وکیل جب پورا دن ملک کی خدمت کر کے ارض وطن کی آغوش میں کچھ دیر سکون کیلئے سر رکھتا ہے تو اس کے رکھوالے اسے خدمت خلق کے جرم میں گرفتار کر لیتے ہیں ۔ وہی رکھوالے جو کشمیر کے ظلم پر ایوانوں میں بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں ۔ اپنے گھر کے بیٹوں کو چار دیواری کے اندھیروں مین ٹارچر کرتے ہیں۔
کیوں ؟
کیوں کہ وہ مقصد پاکستان کے محافظ ہیں
کیوں ؟
کیوں کہ وہ نظریہ پاکستان کے محافظ
کیوں ؟
کیوں کہ وہ نظریہ اسلام کے محافظ ہیں ؟
یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا تاکہ مسلمان اپنے وقار ، اپنی پہچان اپنی ثقافت کا دفاع کر سکیں اور آزادانہ طور پر اس پر عمل کر سکیں ۔ لیکن یہ کیا جب آج اسلام دشمنوں کے خلاف بصیرت رکھنے والے ملک و قوم کو اسلامی ثقافت سے متعارف کرواتے ہیں تو انھین اٹھا لیا جاتا ہے
کیوں؟
کیوں کی یہ ثقافت اسلام دشمن عناصر کے لیے خطرہ ہے۔۔۔
انکا جرم نظریہ اسلام کو بچانا ہے جس نظریہ کے بنا پر یہ ملک آزاد ہوا ۔
نظریہ آذادی سے وفاداری اس ملک میں جرم بن گئی ہے ، جس ملک کا نظریہ جرم بن جائے اس ملک کا کیا بنتا ہے ۔ کیا وہ یوم آزادی منانے کا حق رکھتی ہے ؟
سنا ہے درد ہونا زندگی کی علامت ہے ۔ کیا یہ ملک و قوم اتنی زندہ ہے کہ اپنے اندر کا دکھ محسوس کر سکیں ، کیا ان کے حواس اتنے بیدار ہیں کہ ان سلاخوں میں قید نہ ہونے والی خوشبو کو سونگھ سکیں ، کیا یہ خوشبو گل یاس کا کام کر کے بیمار قوم کو شفا دے سکتی ہے ، آج میرے گھر تک ان جبری گمشدگان کی خوشبو پہنچی۔۔۔۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس ملک کی فضا اتنی بے وفا اور خاموش ہے کہ اس خوشبو کو پہنچنے میں تین سال لگ گئے ۔
میں دعا کرتی ہوں کہ بس اتنے اسیر کافی ہوں اس قوم کو بیدار کرنے کیلئے ، میری دعا ہے کہ بس اتنی چیخ و پکار کافی ہو ان مردہ دلوں کو احساس دلانے کیلئے، میں دعا کرتی ہوں کہ ان ماؤں بہنوں کی بس اتنی چیخ و پکار ہی کافی ہو قوم کی سوئی ہوئی غیرت کو جگانے کیلئے ۔۔۔۔
ہم کیوں اتنے بے حس ہیں ؟
ہم کیوں اتنے بے دل ہیں ؟
ہمیں آہوں کا درد محسوس کیوں نہیں ہوتا ؟
ہمیں دیواروں میں بند چیخیں سنائی کیوں نہیں دیتی ؟
ہماری آواز گلے میں آ کر کیوں رک جاتی ؟
بس ختم کر دیتے ہیں ناں ،اب اب اور ظلم ہونے نہیں دیتے ، اب اکھٹے ہو جاتے ہیں اس سے پہلے کہ ان کے ہاتھ آپکی اولاد پر پڑیں۔۔۔۔