واللہ اپنی زبانیں کھولو
تحریر:سیدہ زینب کاظمی
ہم سب تنویر حیدر ہیں
آج سید حسن نصراللہ کی وہ بات یاد آگئی ۔۔
سید فرماتے ہیں ۔
آگر ہم مار کر ختم کر دیئے جانے والوں میں سے ہوتے تو کربلا میں ہی ختم ہو جاتے ۔
لیکن آج پوری دنیا میں ہر کونے میں شیعانِ علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہیں ۔کیونکہ ہم دعا فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہ ہیں ہمیں یہ تمہاری بزدلانہ حرکتیں ڈرا نہیں سکتی نہ ہی اپنے مقصد سے ہٹا سکتی ہے ۔
تمہیں یہاں ایک شخصیت میں کئی کردار ملیں گے اور ایک کردار تمہیں کئی لوگوں میں دکھائی دے گا ۔تم ہمیں ختم نہیں کر سکتے ۔۔
تم سمجھتے ہو کہ ایک تنویر حیدر کو تم اغواء کرو گے تو تم کامیاب ہو جاو گے ۔
بہت بڑے بےوقوف ہو تم کیونکہ وہ صرف ایک شخصیت نہیں کردار ہیں اور کردار ایک جسم تک محدود نہیں رہا کرتا آج
ہم سب تنویر حیدر ہیں ۔
جس ملک میں رہتے ہو اسی کے باوفا و جانصار کو تم یا تو قتل کرتے ہو یا اغواء کر کے انہیں ظلم کا نشانہ بناتے ہو ۔
کیا اسلامی نظریہ رکھنے والے ملکوں میں یہی حقوق دیے جاتے ہیں ۔کیا اسلام یہی تعلیم دیتا ہے کہ معصوم شہریوں کو حراساں کرو اور انہیں اپنی تسکین کے لیے ظلم کا نشانہ بنا دو ۔آخر حکومت کو کیوں کچھ نظر نہیں آتا ۔آخر تب کیوں کوئی نہیں بولتا جب معصوم شیعہ شہری یوں آستین کے سانپوں کے حصار میں ہوتے ہیں ۔
واللہ اپنی زبانوں کو کھولو۔۔
حق کے لیے آواز اٹھاو۔۔
آخر کیا قصور تھا ان لوگوں کا جو غائب کر لیے گئے ہیں ۔
مت سوچو کہ یہ معاملہ فقط ایک شخص کا ہے ۔
آج اگر مصیبت کسی ایک شخص کے گھر پر آئی ہے تو کل گھر تمہارا بھی ہو سکتا ہے ۔۔
خدا کے لیے اپنا حق لینا سیکھو ۔۔
حق کے لیے مرنا سیکھو ۔۔
اپنی آواز بلند کرو ۔۔
حق کا ساتھ دو ۔۔