سوزخوانی کے عظیم استاد شہید سبط جعفرزیدی


تحریر :توقیر کھرل
18مارچ سوز خوانی کے معروف استاد سبط جعفرزیدی کا یو م ِشہادت ہے۔پروفیسر سبط جعفر زیدی ادارہ ترویجِ سوز خوانی کے بانی تھے۔ یہ سوز خوانی کی ترویج و ترقی کے لیے ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن ہے جس نے سوز خوانی کی بقا اور ارتقا میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

سوز خوانی وہ باقاعدہ فنی وتکنیکی صوتی اسلامی عزائی فن ہے جسکا آغاز تقریباتین سو سال پہلے برصغیر میں ہوا

۔سوزخوانی بنیادی طور پر اردو صنف ادائیگی ہے کہ اسمیں اردو کا معیاری و مستند کلام ہی پیش کیا جاسکتا ہے اس کی ترویج میں راجھستان دکن و پنجاب کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے مگر بنیادی طور پر یہ یوپی والوں ( اردو بولنے والوں) کا فن ہے۔تاہم برصغیر میں قدیمی مجلس سوز خوانی انحاط کا شکار ہے، البتہ گذشتہ کئی سالوں سے دوبارہ سے ترویج کی جا رہی ہے۔

برصغیر میں سوز خوانی کو مجلس کی اذان و اقامت کا درجہ حاصل ہے۔
سوز خوانی کے بارے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سوز فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی درد، رنج و غم اور تکلیف کے ہیں. برصغیر پاک و ہند میں فضائل و مصائب اہل بیت علیہ السلام اور بالخصوص واقعات کرب و بلا اور کوفہ و شام سے لے کر اس قافلے کی مدینے واپسی تک جو منظوم واقعات ہیں، ان کو لحن یا طرز میں اور وضع کردہ طریقوں میں ادائیگی کو "سوز خوانی” کہا جاتا ہے
۔ یوں سمجھئے کہ سوز خوانی ایک گلدستہ ہے، جسے سوز خوان سجاتا ہے۔
پاکستان میں سوز خوانی کے موذن اور بانی شہید سبط جعفر زیدی سوزخوانی سے وابستگی کے بارے رقم طراز ہیں کہ” سکول زمانہ سے ہی مختلف حیثیتوں میں ریڈیو ٹی وی سے وابستہ تھا مگر بطور سوز خواں میرے بچپن کے دوست شاعرِاہلبیت ریحان اعظمی نے 1988 میں پی ٹی وی لے گئے اور اسی سال میرا پہلا آڈیو کیسٹ ان کی کوششوں سے جاری ہوا.”

۔2006تک پچاس آڈیو ویڈیو کیسٹ سی ڈیز منظر عام پر آچکے تھے۲۲سال قبل پانچ آڈیو کیسٹس کا سیٹ نصاب سوز خوانی کے نام سے بھی جاری ہوا ۔

استاد شہید سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے لیےروزنامہ جنگ سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سےتکنیکی و تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے رہے جو بعد ازاں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔
ہارڈ ورڈ یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی اور فلوریڈا میں امریکی محققین و ماہرین پروفیسر سبطِ جعفر زیدی کے دبستان سوز خوانی اور فن سوز خوانی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ماہرین فن اساتذہ اور محققین کی نگرانی میں باقاعدہ استفادہ کررہے ہیں۔

چار سو سال قدیمی رائج سوز خوانی کی مجالس برصغیر میں انحاط کا شکار ہیں لیکن کراچی، اسلام آباد اور اب لاہور میں دوبارہ سے یہ مجالس آراستہ کی جا رہی ہیں،
تاکہ سوز خوانی کا یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔

شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں ایک سو سے زائد سوز خواں اپنی خدمات بغیر معاوضہ کے انجام دے رہے ہیں ۔
اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی ذکرِ شاہ زماں جاری رکھے ہوئے ہیں،سوز خوانی کی مجالس میں مصائب اہل بیت کا ذکر کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے