کیسے چھینے گئے گوہر ہم سے

کیسے چھینے گئے گوہر ہم سے

تاریخ پہ نظر دوڑائی تو عجیب سے واقعات رونما ہوتے دیکھے ..

دیکھا کہ اک جوان جو اپنا کردار نبھانے کے لیے تمام تر مشکلات کے سامنے کھڑا ہے اور اپنی ملت کے لیے ہمدردی رکھتا ہے..دین کی ترویج کے لیے کوشاں ہے اسے مار دیا جاتا ہے

پھر دیکھا کہ اک عالم باعمل جس کا کردار و گفتار اتنا شفاف ہے کہ اسکا جملہ :

*حتی خون کہ آخری قطرے تک خط امام سے پیچھے نہیں ہٹوں گا*

دلوں میں جوش و جزبہ پیدا کر دیتا تھا جس کی پر درد آواز میں پڑھی جانے والی دعا کمیل ہمیں توحید کا درس دینے کے ساتھ امامت کا درد بیان کرتی تھی
مگر کیا ہوا…
اسے بھی دشمن نے اندھیرے میں چھپ کر گولیوں کی نظر کر دیا…..

اور اک مرد مجاہد جو اپنی قوم کی حفاظت کے لیے میدان عمل میں آیا ہے اسکی جدو جہد نے جہاں بزرگوں کو رستہ دکھایا …وہاں جوانوں کو یکجا کر کہ اک پلیٹ فارم پہ لا کھڑا کیا ..جہاں ہر جوان جو دنیا میں مشغول ہو گیا تھا جس کوکوئی راستہ نا ملتا تھا اسے اک نئی جہت دے کر اس کو حقیقی راستے پہ لا کھڑا کیا جو اسے اسکی حقیقی منزل پہ پہنچا دے

جس کے خاص جملات :

*میرے عزیز دوستوں یاد رکھیے…!!!*

*اک طرف قرآن کہتا ہے کہ یہ شہداء زندہ ہیں اورمخاطب ہیں*
*اک طرف انسان کا یہ دعوی ہے کہ میں زندہ ہوں …پس اگر شہداء زندہ ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ مخاطب بھی ہیں اور اگر کمزور انسان کو اک ظاہری انسان کی آواز تو پہنچ رہی ہے اور اس شہید کی آواز نہیں پہنچ رہی کہ جس کے بارے قرآن دعوی کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہیں تو کمزوری کہاں ہوئی ؟؟*
*کمزوری انسان میں ہے جو تہمت و بدکاری کی آواز تو سن رہا ہے مگر شہداء کی آواز نہیں سن رہا*

اسکے کلام و کردار میں وہ سب تھا جو کسی بھی قوم کے رہبر و رہنما میں ہونا چاہیے …
وہ اپنی تمام تر جدوجہد کے باوجود بھی دشمن کی گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا
اسکی زندگی سے شہادت نے کتنے ہی جوانوں کی زندگیاں سنوار دی…
اور خود شہید کے کلام کے مطابق…
شہداء زندہ و مخاطب ہیں
پس یہ شہید بھی زندہ و مخاطب ہے
اور جوانوں کی روح کو بیدار کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے
اور بتا رہا ہے کہ ہم چلے گئے تو کیا ہوا….
جوانوں کی ہمت و حوصلہ ڈگمگانا نہیں چاہیے….
بلکہ اپنے حوصلے بلند کر کہ میدان عمل میں حاضر رہیں
کہ انتظار کا مطلب جمود نہیں
اور اپنے آقا و مولا مھدی عج کے لیے کوشاں رہیں
بہت سخت ہے کہ اپنی تمام تر باعمل و با صلاحیت شخصیات کو یوں دشمن کے ہاتھوں گولیوں کی نظر ہوتے دیکھنا
مگر …..
انکے کردار و گفتار کو اگر دشمن جان چکا ہے اور اس نے اپنے کام کو انجام دے دیا…
تو آج جوانوں کی زمہ داری ہے کہ وہ خونِ شہداء کو اپنے نایاب گوہروں کو دنیا بھر میں متعارف کرواےکہ یہ خون شہیدوں کا ہے …اور اس خون کی تاثیر ہر سوچنے سمجھنے والی شخصیت کے دل پہ ضرور اثر انداز ہوگی…جوانوں کو چاہیے

اپنا مقصد و ہدف بلند رکھیں

کہ دشمن انھیں سستے داموں اپنی گولیوں کی نظر نا کرے
بلکہ خدا مہنگے داموں خرید لے

*عارف کا بیدار لہو اور. نقوی کی شجاعت کہتی ہے…..!!!!*
*تم حوصلے اپنے بلند رکھو ,شہادت سعادت کہلاتی ہے….!!!*
(بنت_حسین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے