شہید ڈاکٹر منبع اخلاص و پیکرِ عشق خدا
یادیں ہیں کہ ماضی کی طرف کھینچ رہی ہیں۔۔۔
میں حال کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہوں۔۔۔
سن ۱۹۹۵ء اسلام آباد کی بات ہے میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ ایک حالیہ منظم شدہ گھر میں کھڑی ہوں اور ایک روح افزا اور خوبصورت خوشبو محسوس کر رہی ہوں۔اپنے بابا سے پوچھتی ہوں کہ یہ گھر تو ایک ہفتہ سے بند تھا تو یہ خوشبو کیسی ہے؟ وہ فرماتے ہیں لگتا ہے شہید کی روح مبارک یہاں تشریف لائی تھی اور اسی عالم میں وہ ایک ہفتہ پہلے کے منظر میں کھو جاتے ہیں۔۔۔
یہی گھر ہے لیکن منظر مختلف ہے کچھ بااخلاص دوست ہیں جو بہت ہی گرمجوشی سے گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہیں۔ان باکمال لوگوں میں ایک ملکوتی صفات کے حامل،سفیر انقلاب،پیکر عشق و اخلاص اور ہر دل عزیز شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی ہیں جو انتہائی جوش و خروش سے فرش چمکانے میں لگے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی شیریں گفتگو سے ہم سب کے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔۔۔ہم سب رفقا کا ارادہ تھا کہ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین پر کام کرنے کے لیے *اخوت اکادمی* کی بنیاد رکھیں۔شہید ڈاکٹر جو اتحاد بین المسلمین کے بہترین حامی تھے اس موقع پر انکی خوشی اور جوش قابل دید تھا ۔۔۔۔
۵ مارچ ۱۹۹۵ء کو اخوت اکادمی کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھی۔یہ اکادمی دراصل ایک نئی حکمت عملی کا آغاز تھا اور ابھی اس کی کونپلیں پھوٹنی ہی تھیں اچانک سانحہ ہجر رونما ہو گیا۔
بچھرا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔۔
اک شخض سارے شہر کو ویران کر گیا۔۔۔(والدہ کی زبانی)
"خدائی رنگ اختیار کرو۔۔اللہ کے رنگ سے اچھا کس کا رنگ ہو سکتا ہے”
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جو *صبغۃ اللہ* کا عملی مصداق تھےکے بارے میں جب لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی تو یہ انتخاب کرنا بہت مشکل تھا کہ شہید کی زندگی کے کس پہلو کو لوں اور کس موضوع میں شہید کی زندگی کو مجتمع کرنے کی اپنی جانب سے ادنیٰ سی کاوش کروں۔شہداء تو ویسے بھی خیر کثیر کا مصداق ہیں تو انکی ذات کا ادراک ویسے ببی بھی ناممکن ہے۔بہر کیف جب شہید کی عارفانہ زندگی پر اپنی ناقص عقل کو ذرا بلند کر کے نگاہ ڈالی تو انکی زندگی میں اخلاص اور عشق خدا کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں۔۔۔
تیرے مقام،تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں۔۔۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی معرفت خدا میں اس کمال پر تھےتمام عمر ہر کام صرف خدا کے لیے انجام دیا۔انکی زندگی کا ہر پہلو عشق خدا کا مظہر ہے۔چاہے پھر وہ انفرادی عبادات ہوں جن میں راتوں کو "قُمِ الَّیلَ” کے مصداق ٹھرے یا اجتماعی عبادات جن میں سب کو شامل کر کے "وَتَوَاصَو بِالحقّ” کی عملی تفسیر۔۔۔
تعلیمی میدان میں دیکھیں تو "اطلبو العلم من المھد الی اللحد” کی روشن مثال تھے۔آپ خود بھی تعلیمی میدان میں ہمیشہ صف اوّل پر رہے اور ہمیشہ جوانوں کی علمی استعداد کو نکھارنے کے لیے کوشاں رہے۔آپ نے جس شعبہ ہائے زندگی میں قدم رکھا اس میں کمال حاصل کیا۔۔۔بحیثیت طبیب آپ کو دیکھیں تو آپ بہترین روحانی و جسمانی طبیب تھے۔انسانیت کا درد رکھنے والی شخصیت تھے۔اکثر آپ کو ایسے مریض ملتے جو آپ سے بدتمیزی کرتے یا آپ کا لباس خراب کر دیتے مگر آپ نے کبھی کچھ نہ کہا اور جب لوگ کہتے کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں ہو سکتے تو آپ اتنی زحمت کیوں اٹھاتے ہیں تو آپ ہمیشہ امام حسینؑ کا یہ فرمان دہراتے کہ *جو کام صرف خدا کے لیے کیا جائے اسکا اجر بھی خدا ہی دیتا ہے*۔۔۔آپ جہاں بھی ڈیوٹی کے لیے جاتے وہاں کے لوگوں کے مسیحا بن جاتے اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے۔۔حتیٰ کہا اوائل عمر ميں بھی آپ کا خون اطہر ایسا ہی منقلب تھا ۔ہمیشہ بڑے بڑے معرکے سر کرنا اور دین کے لیے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنا انکی جستجو رہی اور ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو بھی یہ ہی درس دیا کہ۔۔۔
زندگی کے ابتدائی دور میں بھی کم سے کم۔۔۔
آدمی کو عرش تک پرواز کرنا چاہیے۔۔۔
اور جب جنبش میں آجائیں پر و بال حیات۔۔۔
عرش سے پرواز کا آغاز کرنا چاہیے۔۔۔
آپ کا یہی اخلاص اور عشق تھا جس کی وجہ سے خداوند کریم نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی الفت ڈال دی۔آپ نے جوانوں کی افراد سازی کے لیے مختلف مراحل کے ذریعے بااثر کام کیا۔خدا نے آپ کی ذات میں اس قدر جاذبیت رکھی تھی کہ جو بھی آپ کی گفتگو سنتا آپ کا عقیدت مند بن جاتا۔بقول شاعر:
وہ خوش کلام اتنا تھا
کہ اسکے پاس ہمیں۔۔۔
طویل رہنا بھی لگتا تھا مختصر رہنا۔۔۔
آپ کی ذات گرامی ایک سکول کی مانند تھی جس سے مختلف عمر اور جماعت کے طالب علم مستفیض ہو رہے تھے اور ہیں۔آپ اپنے رفقاء اور جوانوں کے لیے بالکل ایک شفیق باپ کی مانند تھے۔اکثر کنونشن وغیرہ کے اختتام پر ایک ایک جوان کے پاس جاتے ان سے انکے تاثرات و مسائل پوچھتے اور انکا شکریہ ادا کرتے۔آپ جوانوں کی تربیت کسی خشک ناصح یا زاہد کی طرح نہ کرتے تھے بلکہ اپنے عمل سے تبلیغ کرتے۔حتیٰ کہ جوان اپنے گھر والوں سے زیادہ آپ کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔بقول شاعر:
تیری خوشبو نہیں ملتی تیرا لہجہ نہیں ملتا۔۔۔
ہمیں تو شہرمیں کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا۔۔۔
سفیر انقلاب کا بانی انقلاب روح اللہ امام خمینیؒ اور انکی فکر سے عشق بے نظیر تھا۔امام خمینیؒ کے فرمان پر جان فدا کرنے کو تیار رہتے تھے۔اسی لیے جب دفاع مقدس کے دوران امام خمینیؒ نے امام زمانہ(عج) کی سرزمین سے *ہل من ناصر* کا استغاثہ بلند کیا تو شہید نے اسکو کربلا کی صدائے استغاثہ سمجھا اور فوراً محاذ پر پہنچ گئے۔وہاں ایرانی ڈاکٹر 8 گھنٹے کام کرتے جب کہ آپ 16 گھنٹے اور جب کوئی آرام کا کہتا تو جواباً فرماتے کہ میں یہاں خدمت کرنے آیا ہوں آرام کرنے نہیں۔۔۔اس شجاع انسان میں جب کربلا والوں کی باقی تمام خصوصیات جھلکتی تھیں تو بے باکی و بہادری کیسے نہ ہوتی۔اس لیے ہر قسم کے حالات میں استعماری قوتوں کے سامنےڈٹے رہے۔اس حوالے سے میں نے بذات خود ایسے ایسے واقعات سنے کہ حیران رہ گئی کہ کس طرح کئی کئی راتیں اپنے رفقاء کے ساتھ پابند سلاسل رہے۔۔۔
غرض کہ شہید کی ذاتی زندگی کو دیکھیں جو عجز و انکساری اور کفایت شعاری کا مظھر ہےیا معاشرتی زندگی کو جس کے مسحور کن اثرات اب تک ان سے جڑے لوگوں میں ملتے ہیں۔بس اب میرے الفاظ تمام ہوئے اور آخر میں بس یہ کہنا چاہوں گی۔۔۔
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا۔۔۔
زندگیاں ختم ہوئی اور قلم ٹوٹ گیا۔۔۔
سیدہ مرضیہ زھرا