جنگ یمن کا اختتام سعودی قبیلے کا زوال ہے

این ایچ نیوز پاک۔ سعودی اپوزیشن راہنما حمزۃ الحسن اور "تحریک خلاص” کی قیادت کونسل کے رکن نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر، جنگ یمن کے اختتام کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
انھوں نے لکھا: جنگ یمن کے اختتام کی صورت میں تبدیلیاں بہت تیز رفتار ہوں گی اور یمن کے عمومی حالات بدل جائیں گے۔
حمزۃ الحسن نے لکھا: یمن پر سعودی حکومت کی جارحیت علاقے میں ایک بڑی بھونچال کے مترادف تھی جو بڑی تبدیلیوں کا باعث ہوئی؛ چنانچہ اس جنگ کا اختتام بھی عظیم تبدیلیوں کا پیشہ خیمہ ثابت ہو گا اور یہ تبدیلیاں کئی موضوعات میں رونما ہونگی، اور اختتام جنگ کا اولین نتیجہ – ممکن ہے کہ – ریاض اور ابوظہبی کے باہمی تعلقات کی نابودی کی صورت میں بر آمد ہو۔
انھوں نے توقع ظاہر کی کہ جنگ یمن کا اختتام مصر کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کی سطح بھی شدت کے ساتھ گر جائے گی اور ممکن ہے کہ قاہرہ، ریاض کے تسلط سے نکل جائے۔
الحسن نے کہا ہے کہ یمن میں سعودی حکومت کی شکست، ریاض اور تل ابیب کے درمیان قربتوں کی بڑھوتری کا سبب ہوگی اور ایسے حال میں کہ ان دو [جڑواں] ریاستوں کی پوزیشن کمزور ہوچکی ہے، ایران اور ترکی کا کردار بڑھ جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس شکست کے ساتھ سعودی حکومت علاقے میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہی کھو جائے اور ملک کے اندر ابھرتے ہوئے مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کے مستعفی اور جعلی صدر کی حکومت "ہوٹلوں کی حکومت” ہے اور منصور ہادی اور ان کے وزراء، یمن پر بنی سعود کی جارحیت کے کچھ عرصہ بعد سے سعودی عرب کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں۔
الحسن کے مطابق، مستعفی صدر اور ان کی کابینہ ریاض کے لئے صرف ایک افادیت کی حامل ہے اور وہ یہ کہ سعودی حکمران ان کو یمن کی جنگ کو طول دینے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں؛ چنانچہ جنگ کے خاتمے کے آغاز میں ہی منصور ہادی اور ان کی [جعلی] حکومت کی عمر کا پیمانہ بھی ٹوٹ جائے گا۔
الحسن مزید لکھتے ہیں: یمن کی جنگ کا خاتمہ یمن کی اخوانی جماعت "حزب التجمع اليمني للإصلاح” کے زوال کا ارمغان بھی ساتھ لائے گا کیونکہ یہ جماعت شمالی یمن کو تو پہلے ہی کھو چکی ہے اور جنوب بھی امارات سے وابستہ انتقالی شوری کے کنٹرول میں ہے۔ چنانچہ اس اخوانی جماعت نے اپنے مستقبل کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔
حمزۃ الحسن کا خیال ہے کہ جنگ یمن کے خاتمے کے ساتھ، شمالی اور جنوبی یمن کے درمیان علیحدگی کا فتنہ بھی ختم ہوکر رہ جائے گا اور متحدہ عرب امارات اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوجائے گا۔ کیونکہ یمن کی تقسیم جنگ بندی اور امن کے لئے ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں رکھنا ممکن نہ ہوگا اور پھر اس سازش کو عالمی سطح پر کوئی حمایت بھی حاصل نہیں ہوگا اور یمن میں ایک وفاقی حکومت کا قیام زیادہ ممکن نظر آتا ہے۔
حمژۃ الحسن نے توقع ظاہر کی ہے کہ جنگ یمن کا خاتمہ سعودی حکمرانی کے مخالفین کے لئے مثبت اور مفید ثابت ہوگی اور مخالفین کو زیادہ مواقع میسر ہونگے، مخالفین کے خلاف ہونے والے سعودیوں کے تشددآمیز اقدامات میں کمی آئے گی اور انہیں بنی سعود کی تباہ کن کارکردگی کے خلاف فعالیت کے بہتر مواقع میسر آئیں گے؛ کیونکہ انھوں نے حالیہ برسوں میں جنگ کے بہانے عوام اور مخالفین کے خلاف پرتشدد اور جابرانہ اقدامات کیے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب نے 2015 میں یمن پر حملہ کیا اور اعلان کیا کہ جنگ ایک ہفتے میں اختتام پذیر ہوگی لیکن انصار اللہ کی زبردست مزاحمت اور سعودیوں کی ناکامیوں کی وجہ سے یہ جنگ آج 2021ء تک جاری ہے۔ ویسے تو بنی سعود نے کئی بار اس جنگ سے گریبان چھڑانے کی کوششیں کیں لیکن انہیں کوئی فائدہ نظر نہ آیا اور امریکی صدر ٹرمپ نیز یہودی ریاست کے نیتن یاہو نے انہیں مزید امداد کے وعدے کرکے، اپنی کوششوں سے روکا اور اب جبکہ جو بائڈن صدر بنے ہیں تو وائٹ ہاؤس سے اس جنگ کے خاتمے کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ امریکہ مزید یمن میں سعودی کاروائیوں کی حمایت نہیں کرسکے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے شرمناک دور کے بالکل آخری دنوں میں انصار اللہ کو دہشت گرد جماعت قرار دیا تاکہ یمن کی جنگ کو ختم نہ کیا جاسکے لیکن جو بائڈن نے اس جماعت کو دہشت گرد جماعتوں کی فہرست سے خارج کردیا تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے مگر انصار اللہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کو جنگ کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے