منی لانڈرنگ کے خلاف وسیع اختیارات، نئے قانون کے تحت اہم ملکی ادارے دوسرے ممالک سے اطلاعات کے باہمی تبادلے اور امداد حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے

منی لانڈرنگ کیخلاف وسیع اختیارات کے  لیے نئے قانون کے تحت اہم ملکی ادارے دوسرے ممالک سے اطلاعات کے باہمی تبادلے اور امداد حاصل کرنے کے مجاز ہونگے۔ 

اس ضمن میں خزانہ، خارجہ ، قانون ، داخلہ کے وفاقی وزرأ اور مشیران ، گورنر اسٹیٹ بینک ، چیئرمین ایس ای سی پی، ڈی جی ایم آئی اور آئی ایس آئی حکام پر مشتمل ایگزیکٹو کمیٹی بنے گی جبکہ 4وفاقی سیکرٹریز، چیئرمین نیب،ایف آئی اے ، ایف بی آر اور اینٹی نارکوٹکس کے سربراہان جنرل کمیٹی کا حصہ بنیں گے، ریگولیٹری اتھارٹیز کیلئے خود مختار ریگولیٹری ادارے ہوں گے ۔

قانون کے نفاذ کے 30؍ روز کے اندر (NEC) کا قیام عمل میں لایا جائے گا، معروف وکیل کاشف ملک کا کہنا تھا کہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم مشکل نوعیت کی قانون سازی تھی۔ 

تفصیلات کے مطابق، پاکستان کے پانچ معروف ادارے غیر ملکی اداروں کے ساتھ انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے اشتراک کریں گے، جس میں معلومات کی فراہمی، حصول اور تبادلے کا اشتراک شامل ہوگا۔ 

ان اداروں میں اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، سپروائزری بورڈ برائے قومی بچت اسکیم اور پاکستان پوسٹ، ایف بی آر اور وہ اکائونٹنٹس جو کہ انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس آف پاکستان (آئی کیپ) اور انسٹیٹیوٹ آف کوسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹنٹس آف پاکستان (آئی سی میپ) کے رکن نہیں ہوں گے۔ 

انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے مطابق، ریگولیٹری اتھارٹیز کے لیے خودمختار ریگولیٹری ادارے ہوں گے۔ جیسا کہ آئی کیپ اور آئی سی میپ متعلقہ ارکان کے لیے، وکلا کے لیے پاکستان بار کونسل اور دیگر خودمختار قانونی ماہرین اور اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے نوٹیفائڈ ایس آر بی۔ معروف وکیل کاشف ملک نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ انسدادمنی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم مشکل نوعیت کی قانون سازی تھی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی (نیک) قائم ہوگی جو کہ وزیر خزانہ یا وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، جب کہ وزرا برائے خارجہ امور، قانون اور انصاف، داخلہ اور اقتصادی امور ڈویژن، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایس ای سی پی، ڈی جی ملٹری آپریشنز، آئی ایس آئی کے سینئر حکام، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے سربراہ، ڈی جی، ایف اے ٹی ایف سیل اور وفاقی حکومت کے نامزد دیگر ارکان پر مشتمل ہوگی۔ 

قانون کے نفاذ کے 30 روز کے اندر نیک کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو کہ انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے تجاویز پیش کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی ملکی مفاد میں دیگر مسائل پر بھی وہ رائے دینے کا حق رکھے گی۔ 

منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے حوالے سے نیک ایک یا زائد ذیلی کمیٹی بھی قائم کرسکے گی اور انہیں مختلف ذمہ داریاں تفویض بھی کرسکے گی۔ جب کہ وفاقی حکومت ایک جنرل کمیٹی تشکیل دے گی جو کہ سیکرٹریز برائے خزانہ، داخلہ، خارجہ امور، قانون، چیئرمین نیب، ایف بی آرسربراہ، ڈی جی ، ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹکس فورس کے سربراہ، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک، کمشنر ایس ای سی پی، ڈی جی، ایف ایم یو، ڈی جی ، ملٹری آپریشنز اور آئی ایس آئی کے نمائندے پر مشتمل ہوگی۔ یہ جنرل کمیٹی نیک کی معاونت کرے گی اور جس شخص کو میٹنگ میں شامل کرنا ضروری ہوگا اسے مدعو کرے گی۔ 

اس کے علاوہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دے گی اور تحقیقاتی اداروں کو خصوصی ہدایت بھی جاری کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے